بوسنیا کے صدر شفیق جعفرووچ نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر میں اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا قبول نہیں کیا جا سکتا‘یورپی اور مغربی ممالک کو یہ سمجھنا چاہیے۔ یوگوسلاویہ سے آزادی کے بعد بوسنیا کے ساتھ پاکستان کے خوشگوار تعلقات قائم ہوئے۔دونوں ممالک ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں برابر کے شریک رہے ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے کئی بوسنین فوجی افسران اور نوجوانوں کو مفت تربیتی سہولت فراہم کی ہے ۔ دونوں ممالک کے مابین اقتصادی‘ صنعتی ‘ تعلیمی ‘ثقافتی اور دفاعی امور پر مستحکم روابط قائم ہیں جبکہ اس وقت دونوں ممالک کے مابین تجارت کا حجم 4.5ملین یورو ہے۔جانبین اس کو مزید بڑھانے کے خواہشمند ہیں۔ بوسنیا میں پاکستان سے چمڑا اور چمڑے سے بنی اشیا‘ ٹیکسٹائل‘ معدنیات ‘ کھیلوں کا سامان اور آلات چراحی درآمد کرنے کی بڑی صلاحیت موجود ہے۔ اسی طرح بوسنین اشیاء فرنیچر‘میٹل اور بالخصوص ایلومینیم کی تجارت کے لئے پاکستان ایک بڑی منڈی ثابت ہو سکتا ہے۔کمزور اور چھوٹا ملک ہونے کے باوجود بوسنیا نے مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک موقف اپنا کر اہل پاکستان کے دلوں میں گھر بنایا ہواہے‘ در حقیقت بوسنیا کے عوام نے ایک عرصے تک خانہ جنگی کا سامنا کیا ہے۔گھروں کو کھنڈرات بنتے دکھا،اولاد و مال و اسباب کو آنکھوں کے سامنے غارت ہوتے دکھا، انہوں نے لاکھوں کی تعداد میں اپنے پیاروں کو جنگ کے شعلوں کی نذر کیا ہے۔ آج بھی کئی بوسنیائی لوگوں کی اجتماعی قبریں ان کے پیاروں کو ماضی کے دکھ اور غم کی یاد دلاتی ہیں۔ اس لئے بوسنیا کی عوام کشمیریوں کے دکھ‘ درد اور پریشانی کو خوب سمجھتے ہیں۔ اس لئے بوسنیا نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے پرامن اور انسانی حقوق کنونشن کے تحت حل پر زور دے رکھا ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بعینہ ہی ایسی ہیں جیسی بوسنیا کی آزادی سے قبل ہوتی تھیں۔ درحقیقت بوسنیائی مسلمان ان تمام مصائب سے گزر چکے ہیں جن سے آج کل کشمیری عوام کو سامنا ہے، یورپ اور مغربی ممالک نے اگر ایسی مشکلات کا سامنا کیا ہوتا تو یقینا وہ بھی بھارتی پشت پناہی کی بجائے کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے نظر آتے۔آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یورپی یونین ممالک چند ڈالروں کی تجارت کی خاطر بھارت کی کشمیریوں کے خلاف کارروائیوں کی مذمت نہیں کرتے ،بھارت آج کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے ،اس نے کشمیر کی زمین ہتھیانے کے لیے قانون سازی کر لی ہے ،کئی ہندووں کو کشمیر کو ڈومیسائل جاری کیا جا چکا ہے جبکہ اس مذموم دھندے میں مزید تیزی لائی جا رہی ہے ،یہ سب کچھ عالمی برادری کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے لیکن وہ اس پر خاموش ہیں ۔عالمی برادری کایہ رویہ قابل افسوس ہے ۔ بوسنیا کے ساتھ ہمیں مزید تعلقات کو مضبوط و مستحکم کرنا چاہیے کیونکہ اگر آپ کے چاروں اطراف دوست ہوں جو دکھ سکھ میں آپ کے شانہ بشانہ کھڑے تو ہی موجودہ دور میں ترقی کی منازل طے کی جا سکتی ہیں بصورت دیگر چپے چپے پر مشکلات گھیر لیتی ہیں۔ فرانس میں جب رسول اللہ ؐ کی اہانت کی گئی تو پاکستان نے کھل کر اس کی مذمت کی۔ بعدازاں وزیر اعظم عمران خان نے مسلم حکمرانوں کے نام ایک خط لکھا جس میں اسلامو فوبیا کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کا کہا گیا۔ ترک صدر طیب اردوان پہلے دن سے ہی فرانس کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ بوسنیا کے صدر نے بھی بڑے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ رسول اللہ ؐ کی توہین کسی صورت برداشت نہیں ہے۔ یورپ ہمیشہ دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ آزادی اظہار ہے حالانکہ آزادی اظہار کے اور کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ مسلمان بھی آزادی اظہار کرتے ہیں لیکن آج تک کسی بھی غیر مسلم کو تضحیک کا نشانہ بنایا نہ ہی کبھی ایسا سوچا۔ لیکن اہل مغرب جان بوجھ کر تشدد اور ناقابل برداشت راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ فرانس نے جب ایسی جسارت کی تو وہاں پر مسلمانوں نے اپنی جانیں رسول اللہ ؐ کی حرمت پر قربان کر کے ثابت کیا ہے کہ ہم جب تک اپنی جان مال اولاد سے بڑھ کر رسول اللہ ؐ سے محبت نہیں کرتے،تب تک ہمارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ مسلمان تو رسول اللہ ؐکی ناموس رسالت پر جان قربان کرنا فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے اہل مغرب توہین آمیز خاکوں سے باز آ جائیں۔آج دنیا بھر میں فرانسیسی عوام غیر محفوظ ہو چکے جس کی ذمہ داری فرانس کے صدر پر عائد ہوتی ہے ،آج مسلم امہ فرانس کی مصنوعات کو آگ لگا رہی ہے ،فرانس کی معیشت غیر مستحکم ہوتی جا رہی ہے ،جس کا ذمہ دار بھی فرانس خود ہے ۔فرانس کو اس بات کا علم ہے کہ مسلمان کبھی بھی یہ برداشت نہیں کر سکتے،اس کے باوجود ایسی حرکت دنیا کو جنگ وجدل میں دھکیلنے کے مترادف ہے ۔ اقوام متحدہ اس پر قانون سازی کرے تاکہ کوئی بھی شدت پسند دنیا کے امن کو غارت کرنے کی سعی نہ کر سکے۔ جب تک اس حساس مسئلے پر قانون سازی نیں ہوتی تب تک دنیا کا امن خطرے میں رہے گا۔ آزادی اظہار رائے کی حدود و قیود متعین کر دی جائیں کیونکہ برائی سے اچھائی کے جنم لینے کی توقع رکھنا پرے درجے کی حماقت ہے۔ اس لئے یورپی یونین انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ آگے بڑھ کر اس بارے کردار ادا کرے۔ بین المذاہب مکالمے کا آغاز کیا جائے اسی میں دنیا کا امن پنہا ں ہے۔