یہ پرانے دَور کا کمرہ تھا،اُونچا اور چوڑا، دو شہتیروں اوردودرجن کڑیوںنے چھت کا وزن اُٹھارکھا تھا۔سامنے اور پچھلی دیوار میں دو،دوروشن دان تھے۔دروازے کے دائیں بائیں کھڑکیاں تھیں۔پچھلی دیوار میں روشن دانوں سے تین فٹ نیچے سفیل تھی،جس میں تانبے،چینی ،سلور اور سٹیل کے برتن سجے تھے۔ کمرے کی ایک نکڑ میں، بڑی سی پیٹی اور پیٹی کے اُوپر تین ٹرنک موجود تھے۔بوڑھی عورت کی کھاٹ ایک شہتیر کے عین نیچے تھی۔بوڑھی عورت کے تین بیٹے تھے ،جو ایک مُدت پہلے الگ ہوئے،گھرٹکڑوں میں بَٹ گیا ،دو بیٹے شہر کے پوش علاقے میں اپنے بیوی بچوں سمیت جابسے،تیسرا سب سے چھوٹا بیٹا آبائی گھر میں الگ شاندار پورشن بنا کر رہنے لگ پڑا،جبکہ اِس کا شوہر مُدت پہلے حادثے کی بھینٹ چڑھ کر اگلے جہان کو سدھار چکا تھا۔ بوڑھی عورت کی خدمت کے لیے صبح سویرے ماسی(کام والی) آجاتی،جو صفائی ستھرائی کے ساتھ ناشتہ اور دوپہر کا کھانا بنادیتی۔یہ کھانا بہت ہی ہلکا پھلکا سا ہوتا۔بیٹا دفتر جانے سے پہلے دَم بھر کے لیے ماں کے پاس آتا،دوائی دیتا ،خیرخیریت پوچھتا پھردفتر کو ہو لیتا ،شام میں واپسی پر بھی کھڑے کھڑے ماں کا دیدار کرتا جاتا اور دوائی دیتا جاتا۔ بوڑھی عورت کو دیکھ کر یوں لگتا ،جیسے عمر ہوئی ،یہ خالی آنکھوں سمیت کھاٹ پر پڑی ہے۔ایک دِن ایساہوا کہ چڑیوں کا جوڑا روشن دان میں آبیٹھا۔اِن کی چہچہاہٹ سے بوڑھی عورت اُٹھ کر بیٹھ گئی۔تھوڑی دیر بعد پرندوں کا جوڑا پُھدک کر شہتیر میں دوکڑیوں کے مابین آبیٹھا۔مختصر وقفے میں یہ جوڑا کمرے میں ہر چیز پر بیٹھ کر دیکھ چکا۔شام کے سائے ڈھلے تو روشن دان سے باہر اُڈاری مارگیا۔بوڑھی عورت بجھ سی گئی۔اگلی صبح ابھی ماسی نہیں آئی تھی کہ بوڑھی عورت اُٹھ کر بیٹھ گئی ،چہچہاہٹ کانوں میں اُتر کرخالی آنکھوں سمیت بدن میں جگہ پاتی چلی گئی ۔پرندوں کو یہ جگہ بھا سی گئی تھی،وہ سارادِن تنکا تنکا لا کر شہتیر پر آلنا بنانے میں کامیاب ہوگئے۔بوڑھی عورت کے بیٹے نے شام کو آکر دیکھا کہ کچھ تنکے کھاٹ پر پڑے ہیں ،اُوپر دیکھا تو آلنا نظرآیا،وہ بولا’’صبح ماسی سے کہوں گا کہ اِس کو اُتار پھینکے ،ورنہ ساراگند آپ کے اُوپر آتارہے گا‘‘مگر بوڑھی عورت نے سختی سے منع کردیا۔یہ پرندوں کی پہلی رات تھی،شام پڑتے ہی اُن کے آلنے میں خاموشی چھا گئی،بوڑھی عورت سکون سے ایسے سوئی جیسے دِن بھر کی مشقت سے گزری ہو۔ اگلی صبح ماسی آئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بوڑھی عورت کھاٹ کو چھوڑ کر کمرے کے دروازے میںکھڑی ہے اور باہر پودوں اور پیڑوں کی اُور دیکھ رہی ہے ،چہرے پر زندگی کے آثار ہیں۔بیٹا دوائی دینے آیا تو وہ بھی ماں کی طبیعت میں بہتری دیکھ کر حیران رہ گیا۔چڑیوں کے جوڑے کے آنے بعد بوڑھی عورت کھاٹ پر زیادہ وقت ضرور گزارتی ،لیکن کبھی کمرے میں پڑی کرسی پر جا بیٹھتی اور کبھی دروازے پرجا کر باہر کا نظارہ کرتی رہتی۔چڑیوں کا جوڑا سارادِن یہاں وہاں پُھدکتا رہتا،روشن دان،شہتیر،سفیل اور پیٹی پر پڑے ٹرنکوں،پر کھیل کود جاری رہتا ۔تاہم صبح سویرے اور عصر کے بعد کچھ وقت کے لیے یہ جوڑا باہر نکل جاتا۔ماسی نے بوڑھی عورت کے ایما پر ایک کٹورے میں پانی اور ایک میں باجرا رکھ دیا تھا۔ دِن گزرتے چلے گئے۔ایک روز بوڑھی عورت کے کانوں میں چِیں چِیں کی آواز پڑی،آلنے میں دوننھے مہمان اپنی آمد کی اطلاع دے رہے تھے،اُس روز بوڑھی عورت کی خوشی دیدنی تھی۔اب چڑیوں کا جوڑا باہر جاتا اور اپنی چونچوں میں برسیم کے کھیتوں سے کیڑے مکوڑے لاتا اور ننھے مہمانوں کی تواضع کرتا۔یہ ننھے مہمان آہستہ آہستہ بڑے ہوتے چلے گئے،موسم بھی تھوڑا تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ایک دِن چڑیا کا بچہ جس کے تھوڑے بال وپر آچکے تھے،آلنے سے نکلاتو سیدھا بوڑھی عورت کی کھاٹ پر بستر میں آپڑا۔بوڑھی عورت نے ماسی سے سیڑھی کے ذریعے دوبارہ اُوپر رکھوادیا۔لیکن اب آنے والے کئی دِنوں میں دِن میں ایک آدھ بار ایسا ہونے لگا۔آخرِ کار ایک وقت ایسا آگیا کہ یہ بچے اُڑنے کے قابل ہو گئے اور روشن دان سے باہر نکل گئے۔اُس روز یہ واپس نہ آئے ۔رات بھر چڑیوں کا جوڑا آلنے میں تنہا بیٹھا رہا،نیچے کھاٹ میں بوڑھی عورت کروٹیں لیتی رہی۔کچھ دِن یہ جوڑا اُداس دکھائی دیا ،پھر یہ معمول پر آتا چلا گیا۔ دِن گزرتے چلے گئے،اِنہی گزرتے دِنوں میں ایک منحوس دِن تھا کہ ماسی صفائی کررہی تھی ،صفائی کے دوران اُس نے دروازے کو زور سے بند کیا ،نر پرندہ بند ہوتے کواڑوں میں آکر نیچے آپڑا،تھوڑی دیر تڑپا ،پھر ساکت پڑگیا۔اُس روز بوڑھی عورت نے ناشتہ کیا اور نہ ہی دوالی۔شاید یہ غم تھا ،یا کام والی کی جانب سے برتی جانی والی غلطی پر احتجا ج تھا۔اب شہتیر پر چڑیا اکیلی بیٹھی رہتی ،چہچہاہٹ ماند پڑگئی۔صبح سویرے روشن دان سے باہر نکل جاتی ،کچھ دیر بعد لو ٹ آتی اور پھر سارادِن کبھی روشن دان،کبھی دروازہ ،کبھی سفیل اور کبھی شہتیر پر بے چین ہو کر جگہ بدلتی رہتی۔شام سے پہلے پھر تھوڑی دیر کو باہر نکل جاتی ،بوڑھی عورت کھاٹ پر لیٹی اُس کا انتظار کھینچتی رہتی،شام پڑنے سے پہلے لوٹتی تو اِس کی جان میں جان آتی۔ آلنے کا تنکا تنکا نیچے گرنے لگا،ماسی اور بوڑھی عورت کا بیٹا ،اس ’’گند‘‘سے تنگ پڑنے لگے۔ایک روز بیٹے نے کام والی سے کہہ کر لمبی سی ڈانگ سے باقی ماندہ آلنا اُتار پھینکا،بوڑھی عورت کھاٹ پر پڑی یہ سب خاموشی سے دیکھتی رہی۔اُس روز چڑیا دانا دُنکا چگنے گئی تو واپس نہ آئی۔بوڑھی عورت کی آنکھوں میں نیند کی جگہ انتظار نے ساری رات پڑائو ڈالے رکھا۔صبح مؤذن نے اذان دی،بوڑھی عورت جاگ رہی تھی،اذان کے کافی دیر بعد روشن دان سے روشنی کی ننھی سی کرن پھوٹتی پائی گئی تو بوڑھی عورت نے آنکھیں موند لیں۔ صبح ماسی آئی اور آتے ہی صفائی ستھرائی میں لگ گئی ،صفائی ستھرائی کے بعد ناشتہ تیار کررہی تھی کہ بوڑھی عورت کا بیٹا ،دوائی دینے آیا ،اُس نے کھیس اُوپر سے اُٹھایا تو ماں کو گہری نیند میں پایا،چھواتو بدن ٹھنڈا پڑچکا تھا۔صبح جب سورج کی کرن روشن دان سے اُتر کر شہیتر پر پڑی تو بوڑھی عورت شہیتر سے ہوتی روشن دان سے نکلتی نامعلوم وسعتوں میں تحلیل ہوتی چلی گئی ،بدن کھاٹ پر پڑا رہ گیا۔