میں تو ایشیاء کو سبز کرنے کے دعووں سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ مذہب کی آڑ میں فسطائیت مسلط کرنے کی کوشش ہے تو میں اس ترانے پر کیسے سر دھن سکتا ہوں کہ جب لال لال لہرائے گا پھر ہوش ٹھکانے آئے گا۔ انتہائی بچگانہ اور مجہول قسم کا نعرہ ہے جس کے گانے والوں کی اکثریت کو خود نہیں معلوم، شدت جذبات میںوہ کس کس کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ میرے جیسوں کا ہوش البتہ بہت پہلے ہی ٹھکانے آ چکا ہے کہ ان خوش کن نعروں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور ان کی آڑ میں کئی اہل ہنر اپنی واردات ڈال رہے ہوتے ہیں۔ اٹھتی جوانیوں میں یہ واردات سمجھ نہیں آتی اور رومان آدمی کو بہائے لیے جاتا ہے۔ عقل اس وقت آتی ہے جب کنپٹیوں میں سفیدی اترنے لگتی ہے اور معاش کے مسائل قدموں سے ہی نہیں دامن سے بھی لپٹ جاتے ہیں۔ اس وقت لال لال لہرائے بغیر بھی ہوش ٹھکانے آ جاتا ہے ۔ لیکن تب بہت دیر ہو چکی ہو تی ہے۔ جو طلباء یہ نعرے لے کر نکلے ، ان سے ہر گز اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ اتفاق تو دور کی بات ان کی حوصلہ افزائی کرنا بھی میرے لیے ممکن نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں انہیں دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ جس طرح محکمہ موسمیات بتا دیتا ہے کہ کب بادل آئیں گے ، کب مینہہ برسے گا ، کب طوفان اٹھے گا بالکل اسی طرح اسلام آباد میں موجود کچھ این جی اوز کے فکری کارندوں کی چاند ماری دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیا نئی واردات منظر عام پر آنے والی ہے۔مشاہدہ کہتا ہے کہ جس پلڑے میں ان کارندوں کا وزن دیکھو جان لو یہی فتنہ گری کے آتش فشاں کا مرکز ہے۔کچھ کارندے این جی اوز میں ہیں ، کچھ این جی اوز کے پے رول پر قلم کاری کرتے ہیں اور اہل دانش تخلص کرتے ہیں اور بعض وہ ہیں جو غیر ملکی اداروں کے ساتھ منسلک ہیں اور انہی کی آنکھ سے دیکھتے اور انہی کے ذہن سے سوچتے ہیں۔یہ جب کسی محاذ پر کھڑے ہو جائیں تو جان لیجیے ان کے پشت پر کھڑی قوتیں کوئی فتنہ پیدا کرنے کو تیار ہیں اور ان کا ہراول میدان میں اتر چکا۔جس کام کی یہ مخالفت کریں ، عقل کا تقاضا یہ ہے اس کی حمایت کی جائے اور جس کی یہ حمایت کریں معقولیت یہ کہتی ہے کہ اس کی مخالفت کی جائے۔یہ رد عمل کی کیفیت نہیں ہو گی فتنہ گروں کے مقابل یہ انسانی شعور کا مطالبہ ہو گا۔ سوال مگر اور ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو طلباء نا دانستگی میں ان قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل جائیں کیا ان پر مقدمات قائم کیے جانے چاہییں؟ میں پوری کوشش کے باوجود اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا۔زمانہ طالب علمی انسان کی فکری ناپختگی کادور ہوتا ہے۔جذبات مگر سچے ہوتے ہیں۔ جوانی کی امنگ بھی ہوتی ہے اور چٹانوں سے ٹکرا جانے کا حوصلہ بھی۔ ذہن سوالات بھی اٹھاتا ہے اور شعور ی جستجو میں انسان اپنا مقام اور سمت بھی بدلتا رہتا ہے۔یہ تلاش حق کا سنہری زمانہ ہوتا ہے۔ تصورات بنتے ہیں اور ٹوٹ جاتے ہیں۔ بت تراشے جاتے ہیں اور توڑ کر پھینک دیے جاتے ہیں۔ انسان سوچتا ہے اور سوچتا ہی چلا جاتا ہے۔ اس سفر میں بہت سے پڑائو ہوتے ہیں ان میں منزل کوئی بھی نہیں ہوتی۔ یہ بہت خالص جذبات کی پھول سی راہوں میں چلنے کی عمر ہے۔ان مسافتوں میں قدم بھی بہکتے ہیں اور نادانیاں بھی ہوتی ہیں۔ خیر خواہی یہ ہے کہ انہیں تھام لیا جائے ، مقدمات قائم کر دینا خیر خواہی ہے نہ حکمت۔ یہ بچے ہیں ، یہ جو نعرے لگا رہے اکثر کو ان کے سیاق و سباق اور معنویت کا بھی علم نہیں۔ وہ صرف جذبات کا اظہار کر رہے ہیں اور وہ ناخوش ہیں۔ مقدمات قائم کرنے کی بجائے ریاست کے پیش نظر پہلا سوال یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے یہ بچے ناخوش کیوں ہیں۔ان کے سوالات کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں کسی فورم پر بیٹھ کر سنے جانے چاہییین۔ ان کا جواب دیا جانا چاہیے۔ ہماری تہذیب ، ہمارے قومی بیانیے ، ہمارے مذہب ، ہمارے ریاستی ڈھانچے ، اور خود ہم میں اتنا اعتماد ہونا چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سے مکالمہ کر سکیں۔ ان کے سوالات تو تلخ ہی ہوں گے اور لہجہ بھی کہ یہ اس عمر کا تقاضا ہے ، جواب میں مگر حکمت کی ضرورت ہے ۔تلخی اور شدت کی نہیں۔تلخی اور شدت سے ان بچوں کی فکری گھٹن بڑھے گی ۔اگر کوئی انہیں استعمال کر رہا ہے تو وہ ان کے لیے آسان چارہ بن جائیں گے ۔ ہم اہنے بچوں کو کسی کا چارہ کیوں بننے دیں؟ مجھے یاد ہے میں نے زمانہ طالب علمی میںبراد محترم خورشید ندیم کے خلاف سخت تنقیدی کالم لکھا اور اس اخبار کو بھیجا جس کے وہ مدیر تھے۔انہوں نے اسے جوں کا توں چھاپ دیا۔ بعد میں سمجھایا کہ تم سے یہاں یہاں غلطی ہوئی۔جنرل حمید گل مرحوم سے میری نیاز مندی کے یہ ابتدائی دن تھے۔ انہوں نے دستور پاکستان کے حق میں ایک بیان دیا کہ ملک میں اگر کچھ مسائل ہیں تو اس کا ذمہ دار آئین نہیں۔آئین بڑا ہی محترم ہے ۔میری ناپختہ عمر تھی ، جنرل صاحب کچھ اور کہہ رہے تھے میں کچھ اور سمجھا۔ میں نے پورا کالم لکھ مارا کہ جنرل صاحب آپ کا آئین بڑا محترم سہی لیکن کیا یہ آئین کسی غریب کے منہ میں نوالہ ڈال سکتا ہے وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ۔ انتہائی بچگانہ اعتراضات تھے جو میں نے پورے اہتمام سے اٹھائے۔ چند روز بعد ایک تقریب میں جنرل صاحب سے ملاقات ہوئی انہوں نے مسکرا کر کہا: آصف میں نے کیا کہا اور تم نے کیا لکھ دیا؟ ساتھ ہی جناب ہارون رشید بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا جیسے سمجھتا ہے سمجھنے دیجیے ، عمر ہی ایسی ہے۔ ساتھ ہی ایک شعر سنایا: ؔؔکھیلنے دو انہیں عشق کی بازی کھیلیں گے تو سیکھیں گے مجنوں اور فرہاد کی خاطر کیا کھولیں اسکول میاں ؟ مجھے بھی آج یہی عرض کرنا ہے بچوں کو عشق کی بازی کھیلنے دیجیے ، کھیلیں گے تو سیکھیں گے۔ جہاں غلطی کر رہے ہیں وہاں ان کی اصلاح کیجیے ۔ لیکن یاد رکھیے یہ اپنے ہی بچے ہیں۔