بچوں سے زیادتی کے واقعات پر جب تک میڈیا چیخ و پکار نہ کرے‘ عوام سڑکوں پر احتجاج نہ کریں‘ حکومت کا ضمیر سویا رہتا ہے۔ شور شرابے کے بعد چند دنوں کیلیے حکومت حرکت میں آتی ہے‘ پھر گہری نیند سو جاتی ہے۔ بچوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کیلیے ریاست کوئی سنجیدہ کوشش کرنا نہیں چاہتی۔ گزشتہ ہفتہ ضلع قصور کے قصبہ چُونیاں میں تین کم سن گمشدہ لڑکوں کی لاشیں ملیں۔ ایک نو سالہ لڑکا فیضان گُم ہونے کے ایک روز بعد ایک ویران جگہ پر مُردہ حالت میں پایا گیا۔ فرانزِک رپورٹ سے پتہ چلا کہ اُس کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد گردن توڑ کر مار دیا گیا۔ ساتھ ہی دو اور کم سن لڑکوں کی لاشیں بھی ملیں جو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھیں اور ناقابلِ شناخت تھیں۔ پولیس ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ان کو شناخت کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ گزشتہ تقریباً دو ماہ میں اس چھوٹے سے شہر میں چار کم سن بچوں کے گُم ہونے کی رپورٹ پولیس کے پاس درج کروائی گئی لیکن ایک بھی بازیاب نہ ہوسکا۔ قصور شہر میں گزشتہ برس ایک سات آٹھ سالہ بچی زینب انصاری کو جنسی زیادتی کے بعد بہیمانہ طریقہ سے قتل کردیا گیا تھا۔ چار سال پہلے اسی قصور شہر میں درجنوں بچوں کے ساتھ بدفعلی کرنے کی عریاں ویڈیوز نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جب بھی بچوں کا جنسی اسکینڈل سامنے آتا ہے تو میڈیا کی ساری توجہ پولیس کی غفلت اور نالائقی پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ کسی حد تک پولیس قابل ملامت ہے بھی۔ کیونکہ وہ گم شدہ بچوں کو ڈھونڈنے میں لاپرواہی اور بے حسّی کا مظاہرہ کرتی ہے کیونکہ اکثر گم شدہ بچوں کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے۔ زینب کے کیس میں پولیس اس وقت متحرک ہوئی جب مقامی لوگوں نے احتجاج کیا‘ نعرے بازی کی‘ پتھراو کیا اور تھانے کو آگ لگانے کی کوشش کی۔ تب چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی نوٹس لیا اور پولیس کو کارروائی کرنے کا حکم جاری کیا۔ غریب لوگوں کیلیے پولیس ایک ناکارہ ادارہ ہے۔ خدا کی پناہ‘ چونیاں میں دو ماہ سے بچے غائب تھے۔ پولیس نے گمشدگی کی رپورٹ درج کی اور ماں باپ سے کہا کہ وہ خود ہی بچوں کو ڈھونڈیں‘کسی دربار میں جا کر یا رشتے داروں کے ہاں۔ اگر ایک عوام دوست‘ پیشہ ور پولیس ہوتی تو فوری طور پر اہلکاروں کی ٹیمیں بنا کر کم سے کم تھانہ کی حدود میں علاقہ کا چپہ چپہ چھانتی۔ خاص طور سے ویران علاقوں کا معائنہ کرتی کیونکہ عام طور سے جرائم پیشہ افراد ایسی جگہوں پر جاتے ہیں جہاں لوگوں کا گزر نہ ہو۔ زینب کی لاش ایک کوڑے کے ڈھیر سے ملی تھے۔ حالیہ واقعہ میں بھی صنعتی علاقہ سے پرے ایک ویران مقام سے لاشیں ملی ہیں۔ پولیس محلہ کے لوگوں سے رضا کار منتخب کرکے ان کی مدد سے علاقہ کی مکمل تلاشی کرسکتی تھی۔ یہ کام ایک دن میں مکمل ہوجاتا۔ پولیس کا نظام اتنا بگڑ چکا ہے کہ کمیونٹی پولیسنگ کا جو تصور کسی زمانے میں رائج تھا اب ختم ہوگیا ہے۔ بچوں سے زیادتی کے معاملہ پر صرف پولیس کو بُرا بھلا کہہ دینے سے اس برائی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ یہ معاملہ خاصا پیچیدہ ہے جس کے کئی پہلو قابلِ غور ہیں۔ پُورے ملک میں گزشتہ سال تقریبا چار ہزار بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔ یہ تو صرف وہ کیسز ہیں جو رپورٹ ہوئے۔ ان کے علاوہ متعدد واقعات والدین اس لیے رپورٹ نہیں کرتے کہ بدنامی سے بچ سکیں۔ اگر قصور‘ چُونیاں ایسے واقعات یورپ یا امریکہ میں ہوتے تو اب تک عمرانی محقق دن رات کام کرکے اس موضوع پر درجنوں تحقیقی مقالے شائع کرچکے ہوتے۔ ماہرین ِعمرانیات اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے کہ مثلاّ قصور میں بچوں کے ساتھ غیرفطری جنسی رویے کیوں پنپ رہے ہیں‘ ان جرائم کے معاشرتی اور معاشی اسباب کیا ہیں۔ ہمارے ملک میں عمرانی تحقیق کے ادارے موجود نہیں اور یونیورسٹیوں میں اوریجنل تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ بچوں سے زیادتی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو میڈیا اسے خوب اُچھالتا ہے اور چند دنوں بعد خاموش ہوجاتا ہے۔ سماجی مسائل پر سنجیدہ بحث نہیں کی جاتی۔ سب سے اہم‘ بچوں کی پرورش‘ تحفظ اور دیکھ بھال کی بنیادی ذمہ داری ماں باپ کی ہے۔ بعض والدین یہ ذمہ داری ادا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ غریب گھرانوں میں ماں باپ محنت مزدوری کیلیے نکل جاتے ہیں اور ان کے بچے گلیوں‘ سڑکوں اور پارکوں میں کھیلتے رہتے ہیں۔ جنسی بیمار لوگ ان بچوں کو کھلانے پلانے اور دوسری چیزوں کا لالچ دیکر ان سے تعلقات بنالیتے ہیں اور ان سے زیادتی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ رشتے داروں اور اہل محلہ کی بھی کوتاہی ہے کہ وہ بچوں کو بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ گُھومنے پھرنے سے منع نہیں کرتے۔ ہمارے روایتی سماجی نظام میں بچے سانجھے سمجھے جاتے تھے۔ محلہ کے سب ہی لوگ کسی بچہ کو غلط کام کرنے سے منع کرسکتے تھے‘ اسکی ڈانٹ ڈپٹ کرسکتے تھے۔ یہ روایت دم توڑ گئی ہے۔ سماجی حفاظتی نظام کمزور ہوگیا ہے۔ اس پر مستزاد انٹرنیٹ عام ہونے سے لوگوں کی عریاں فلموں تک رسائی بڑھ گئی ہے جس سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ذہنی بیمار ہورہی ہے۔ شادی کرنے کی عمربڑھ گئی ہے‘ غیر فطری روّیے پنپ رہے ہیں۔نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کا روایتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ‘ نئے ادارے بن نہیں سکے۔ بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کا گہرا تعلق غربت سے بھی ہے۔ ملک بھر میں دو کروڑ سے زیادہ بچے اسکول نہیں جاتے۔ اس ضمن میں حکومت اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کررہی ہے۔ اگر غریب گھرانوں کے بچوں کو اسکول میں کھانا‘ کتابیں اور یونیفارم مفت ملیں اور اساتذہ مار پیٹ نہ کریں تو یہ بچے آوارہ پھرنے اور مزدوری کرنے کی بجائے اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں۔ بارہ تیرہ سال پہلے پنجاب حکومت نے آوارہ گھومنے والے بچوں کیلیے لاہور میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو بنایا تھا جہاں بچوں کو ہاسٹل میں رکھ کر انہیں تعلیم دی جاتی تھی۔ اس ادارہ کو ہر ضلع تک توسیع دینے کی ضرورت تھی لیکن لاہور کا ادارہ ہی پوری طرح فعال نہیں رہ سکا۔ بچوں سے زیادتی کے بڑے بڑے واقعات ہوئے لیکن مجال ہے جو کبھی ہماری قومی یا صوبائی اسمبلیاں اس اہم موضوع پر سیر حاصل بحث کریں‘ اس برائی کے تدارک کیلیے تجاویز دیں۔ ان حالات میں میڈیا میں رونے دھونے کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے؟