اپنی اس سُستی کو ہم سرِ مجلس تسلیم کرتے ہیںکہ آج تک ہم نے دنیا بھر کے حسین مقامات اور جمیل مسمات کو بالعموم سفرنامے اور سفرنامہ نگار ہی کی شریر و متجسس آنکھ سے دیکھ رکھا تھا لیکن جہاں تک سر زمینِ مصر کا تعلق ہے، یہ پہلے تو محض قرآن میں مذکور حُسنِ یوسف اور حُزنِ موسیٰ کے حوالے سے ہمارے حافظے میں ترازو تھی۔ اس طلسماتی دھرتی کا تھوڑا بہت تعارف اُردو کے پہلے سفرنامہ نگار یوسف خاں کمبل پوش نے فراہم کیا۔ بعض قابلِ التفات پہلو پروفیسر ابراہیم محمد ابراہیم ، جو ماضی میں ہمارے پنجاب یونیورسٹی کے کلاس اور سپر وائزر فیلو رہے، پھر پاکستان کے داماد بنے اور اب جامعہ الازہر میں شعبہ اُردو کے سربراہ ہیں، کی پُر خلوص صحبتوں سے بھی سمجھ میں آئے۔ مصری مزاج کا کچھ اندازہ مصر کی جامعات، الازہر اور عین شمس میں فروغِ اُردو کے لیے خدمات انجام دینے والے اپنے دوستوں ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر اختر شمار اور ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی گفتگو اور تحریروں سے بھی ہوا۔ پھر سلطنتِ مصر کا ایک اچھوتا تعارف معروف مزاح نگار اور ہمارے بزرگ دوست جناب پروفیسر افضل علوی نے اس طرح کرایا تھا: پھینکا جو چاہ میں تو ملی سلطنتِ مِصر یوں بھی تو کام آئے ہیں بھائی کبھی کبھی جہاں تک فرعون کی بات ہے، وہ تووطنِ عزیز میں زندگی کے ہر ہر شعبے میں پھیلی فرعونیت کی بنا پر پہلے ہی کبھی ذہن سے محو نہیں ہوا تھا لیکن آج ہمارا موضوع سابق آئی جی پولیس جناب طاہر انوار پاشا کا تازہ ترین سفرنامہ ’’نیل کے سنگ‘‘ ہے۔ دوستو! ہمارے معاشرے میں ’آئی جی‘ تو ایسا با رُعب لفظ ہے کہ گھر میں آپ کے بلاوے پر بیگم ایک بار ’’آئی جی‘‘ کہہ دے تو بندے کا بند بند خوشی سے پھول جاتا ہے۔ پھر جس شخص کو گلیوں، بازاروں، چینلوں، اخباروں میں آئی جی، آئی جی سننے کی سہولت موجود ہو، اس کی خماری و سرشاری کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ پاشا صاحب کا سفرنامہ پڑھ کے پہلی خوشی تو یہ ہوئی کہ انھوں نے عام سرکاری ملازمین کی طرح ریٹائرمنٹ کو دل پر نہیں لیا، دلبری پر محمول کیا ہے، بقول جعفر بلوچ: دل خوش ہے ، آسودہ ہے جاں ، اب ہم ریٹائر ہو چکے حاصل ہوئیں آزادیاں ، اب ہم ریٹائر ہو چکے سودائے نظم و ضبط کیا اور نوکری کا خبط کیا ہیں تا حیات اب چھٹیاں ، اب ہم ریٹائر ہو چکے وِگ نَو بہ نَو لہرائیں گے ، آنکھیں نئی بنوائیں گے ہوں گی نئی بتیسیاں ، اب ہم ریٹائر ہو چکے انھوں نے اسے عذاب نہیں ثواب سمجھا، تسبیح ٹوپی پہن کے محلے داروں کے لیے نصیحتیں، اولاد کے لیے وصیتیں اور رشتے داروں کے لیے فضیحتیں گھڑنے کی بجائے دنیا کے سفر پہ نکل کھڑے ہوئے اور گھر بیٹھے لوگوں کے لیے دنیا کا متحرک منظرنامہ تشکیل دینا شروع کر دیا لیکن ایک بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ اتنے سنجیدہ سفرنامے کی ہر تقریب میں مزاح نگاروں کا جمِ غفیر چہ معنی دارد؟ اس سے پاشا صاحب کی زندہ دلی تو یقیناً کھل کے سامنے آ جاتی ہے، لیکن ساتھ ہی شہر میں سنجیدہ فکر لوگوں کی تفریط اور مزاح نگاروں کی افراط کا بھی بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ ’’نیل کے سنگ‘‘ کا سرورق دیکھ کے امید بندھی تھی کہ اس میں اگر کہیں فرعون کی رعونت اور بنی اسرائیل کی خشونت کا ذکر آیا تو کہیں نہ کہیں تبرک کے طور پر زنانِ مصر کے موجودہ حُسن کی خیرگی اور وہاں کے شینھ جوانوں کی کچھ نہ کچھ آوارگی بھی ضرور ہاتھ لگے گی۔ چنانچہ اسی نوید، وعید، امید میں دو سو چودہ صفحے کا جام ڈِیک لگا کے پی گئے۔ خاتمے پر کھُلا کہ مذکورہ سفرنامہ تو عمرو عیار کی زنبیل ہے کہ جس میں سے مصر کی تاریخ، سیاست اور جغرافیہ چھلک چھلک پڑتے ہیں۔ ابوالہول کی بات چلے یا گیدڑسنگھی کا تذکرہ ہو، دریائے نیل کا قصہ چھِڑے یا قاہرہ کے عجائب گھروں میں تاک جھانک کی بات ہو، کتاب کے مطالعے سے مصنف کا سفری تشوّق اور علمی تفوّق قدموں سے لپٹا جاتا ہے۔ عالم لوہار کے گانے ’نیل کرائیاں نیلکاں‘ کا ذکر آتا ہے تو حوالۂ متن اور سیاق و سباق کے ساتھ تشریح کرتے ہیں۔اہرام مصر میں پڑنے والی گرمی کا سینک کتاب کے لفظوں تک میں سمٹ آیا ہے۔ فراعنۂ مصر کتاب کے ورق ورق پر قابض ہیں۔ وہ تو عہد نامۂ رسولؐ، عہدِ عمرؓ،حسینؓ کے سر مبارک،زینبؓ کے مزار، صلاح الدین ایوبیؒ کی للکار، عمر بِن العاصؓ کی یلغار کا تذکرہ بھی پوری عقیدت سے کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس میں موسیٰ کے پلنے، طور کے جلنے اور فرعون کے ٹلنے کی کہانی بھی سلیقے سے بیان ہوئی ہے۔ اصل فرعون کی نشان دہی بھی پوری پُلسیانہ تفتیش کے ساتھ عمل میں آئی ہے۔ جولیس سیزر کی شادی سے خود کشی تک کی کہانی بھی بخوبی بیان ہوئی ہے۔ جمال عبدالناصر، انور سادات، حُسنی مبارک اور محمد مُرسی سے متعلق معلومات ضرورت سے بھی زیادہ ہیں۔ جناب طاہر انوار پاشا چونکہ عام پولیس والوں کے برعکس تحقیر کی بجائے تحقیق کے آدمی ہیں، اس لیے یہاں تو ممیوں کا انڈیکس بھی ریاضی کے استاد کی طرح ازبر کرایا گیا ہے۔ لیکن صاحب مجال ہے جو کہیں مصنف نے قاری کو للچانے اور آنکھ کو گرمانے کا خاطرخواہ سامان کرنے کی کوئی باقاعدہ کوشش کی ہو۔ اپنے حکیم جی تو اس جبری شرافت کے پیچھے بیوی کا ساتھ اور ریٹائرمنٹ کا ہاتھ بتاتے ہیں۔ شوہرانہ احتیاط کا یہ عالم ہے کہ یوسفؑ کا ذکر آتا ہے توزلیخائی کی رَو میں بہنے کی بجائے محض سورہ یوسف کا خلاصہ بیان کرنے پہ اکتفا کرتے ہیں۔ حد یہ کہ حضرت شرم الشیخ کے شرم پروف علاقے میں بھی مسجد اورسبزہ ڈھونڈتے پائے گئے۔ بَیلی ڈانس میں تھرکتی پھڑکتی ، جلوے بکھیرتی نیم بلکہ دونیم برہنہ رقاصہ پہ قلم رواں ہونے لگتا ہے تو بھی پہلو میں بیٹھی بیوی آڑے آ جاتی ہے۔ انھوں نے تو بیوی کی محبت، خواہش یا ہدایت کے پیشِ نظر جہاں قلوپطراؤں کی تعداد ایک سے سات کر دی ہے، وہاں تاریخ کی پلیٹ میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین فرعونوں کی لذیذ ڈِش بھی اہتمام کے ساتھ سجا دی ہے۔ ایسے میں ہمیں جناب مشتاق احمدیوسفی کا وہ جملہ رہ رہ کے یاد آتا رہا کہ بیرونِ ملک بیوی کو ڈھو کے لے جانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی آدمی شمالی علاقہ جات کی سیر کو جائے اور برف کی ڈلی گھر سے تھرماس میں رکھ کے لے جائے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اپنے پاشا صاحب کی جہاز کے اندر مسافروں سے لپٹ لپٹ جاتی بَیلی ڈانسر کے ساتھ اشتیاق، استغراق، انہماک اور طمطراق کے ساتھ اتروائی گئی تصویر کے حصول کے بغیر حیرت انگیز اور حسرت آمیز واپسی پر ہمیں استاد قمر جلالوی کا وہ شعر رہ رہ کے یاد آتا رہا کہ: موسیٰ سے ضرور آج کوئی بات ہوئی ہے جاتے میں قدم اور تھے ، آتے میں قدم اور قارئین آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ جس سفرنامے میں ہر پہلے قدم پر بچوں کی ممی اور دوسرے قدم پر فرعون کی ممی کھڑی ہو، اُس کے مصنف کی بابت ایک شریف تبصرہ نگار بے چارہ اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہے کہ: الف انوار ، ب بیوی ، ف فرعون بُلھیا کیہ جاناں مَیں کون!