بولے تو لفظ باعث الزام ہو گئے ہم چپ رہے تو اور بھی بدنام ہو گئے تھی تندوتیز کس قدر اپنی یہ زندگی کتنے ہی حادثات سرشام ہو گئے وقت کو پنکھ لگے ہوئے اور وہ اڑتا چلا جاتا ہے۔ وہ وصل کے لمحوں کی طرح یا بہار کے لمحوں کی طرح ہے۔ امیر مینائی یاد آ گئے: وصل کا دن اور اتنا مختصر۔ دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے۔ نہیں صاحب ایسی سوچیں صرف خوش حالی میں آتی ہیں جن کے گھر دانے نہیں ان کا وقت کہاں گزرتا ہے۔ مہنگائی نے جن کی نیندیں اڑا دی ہیں وہ خواب کہاں دیکھتے ہیں وہ کون کاٹے پہاڑ راتوں کے۔ کس کی آنکھوں میں اتنا پانی ہے۔ ویسے آج سب سے زیادہ لطف عثمان بزدار صاحب کے بیان نے دیا۔ فرماتے ہیں عوام کو ریلف دینے کے لیے آخری حد تک جائوں گا۔ یہ بیان اگر وزیراعظم دیتے تو یہ بہت بامعنی ہوتا کیونکہ وہ ریلیف دینے میں آخری حد تک جا چکے ہیں اور غریبوں میں مزید ریلیف سہنے کی سکت ہی نہیں۔ ہائے ہائے کیسا شعر کہاں یاد آیا: اب مجھ پہ نزع کا عالم ہے تم اپنی وفائیں واپس لو جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں اسد عمر کے بیان نے بھی بہت مزدہ دیا کہ حکومت آتے ہی بجلی بارہ روپے فی یونٹ مہنگی کردیتی تو سرکلر ڈیٹ ختم ہو جاتا۔ کیسی کیسی حسرتیں ان لوگوں کے دلوں میں دم توڑ گئیں۔ بعض اوقات ہنسی کے ساتھ رونا بھی آتا ہے کہ میڈیا پر بیٹھے ہوئے مبصرین کس بات پر عمران خان کو داد دے رہے ہیں کہ وہ آخر مان گئے ہیں کہ انہیں آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر ہوئی یا انہوں نے دیر کردی۔ اب بتائیے اس اعتراف سے معیشت ٹھیک ہو جائے گی۔ ویسے یاوش بخیر اسد عمر ہماری معیشت ٹھیک کرنے آئے تھے اپنی بھی خراب کر بیٹھے۔ اب تو فواد چودھری بھی کافی دھیمے پڑ گئے ہیں۔ کچھ کچھ حقیقت پسند ہوئے ہیں تو وہ اچھا لگنے لگے ہیں۔ ان کے لیے ایک شعر جو صحیح صحت کے ساتھ آصف شفیع نے بھیجا ہے۔ اکثر لوگ اس شعر کو غلط پڑھتے اور لکھتے آئے ہیں : زندگی زندہ دلی کا ہے نام مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں ویسے کمال کی بات ہے کہ اس حکومت سے اگر کوئی خوش ہے وہ بچے ہیں اور وہ بے چارے معصوم یہ نہیں جانتے ہیں کہ وہ حکومت کے متاثرین میں سے ہیں۔ بچے ہمیشہ اس سے خوش ہوتے ہیں جو انہیں چھٹیاں دے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ ہمیں وہ استاد زہر لگتا ہے جو کوئی ناغہ ہی نہیں کرتا تھا۔ ہر روز سر پر سوار‘ وہ استاد گرامی بہت اچھے تھے جو اکثر چھٹی پر ہوتے اور کلاس میں بھی ہوتے تو آرام سے چھٹی دے دیتے۔ بچوں کی تو موجیں لگ گئی ہیں۔ اب ان کے پاس کھلا وقت ہے کہ محلے میں اودھم مچائیں اور کھیلیں۔ چلیے کچھ نہ کچھ تو حکومت نے مہربانی کی ہے کہ آن لائن پڑھنے کی اجازت دے دی ہے۔ آپ اسے بھی ان کا احسان سمجھیں۔ یہ تو اب ان لوگوں پر ہے کہ جن کے پاس یہ سہولت نہیں‘ وہ خود جا کر بچوں کا ہوم ورک لایا کریں گے۔ اس حکومت نے گویا والدین کو بھی کچھ ہوم ورک دے دیا ہے۔ میںتو خوفناک منظر دیکھ رہا ہوں۔ اللہ ہم پر رحم کرے کہ اقتدار کا مزہ لینے والے بہت بے رحم ہو سکتے ہیں۔ میری تلخ نوائی ہو سکتی ہے آپ کو اچھی نہ لگے۔ مگر کیا کریں۔ آپ نے بھی سنا ہو گا کہ غریب کی آخری حد نہ ہی دیکھیں۔ وہ کورونا کی مد میں ملنے والی رقم کا حساب بھی لے گا۔ نثار اکبر آبادی یاد آ گئے: پھر کیوں ہے غریبوں کے گھروں میں اندھیرا یہ چاند اگر سارے زمانے کے لیے ہے تیزی کے ساتھ سب کچھ بدلتا جارہا ہے۔ اقدار و روایات تک۔ کل میں ایک سیاستدان کی بات سن رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ مائنڈ سیٹ کیا چیز ہے۔ وہ سیاستدان روشن خیال پارٹی کے تھے فرما رہے تھے کہ یہ جو کرپشن اور چوری کے الزام میں بڑی جماعتوں کو کارنر کیا جارہا ہے تو یہی متوازن اور ماڈریٹ تھے۔ وگرنہ پھر آپ دیکھ لیں کیا ہوگا۔ ان کی جگہ کون آئے گا۔ مجھے تو ان کی بات لکھتے ہوئے بھی شرم آ رہی ہے کہ انہوں نے کس بڑے اجتماع کا حوالہ دیا۔ ان کے نزدیک ہر دین دار اور پکا مسلمان انتہا پسند ہی ہے۔ یہ ماڈریٹ بھی کیا خوب لفظ ہے۔ مشرف کے دور میں روشن خیالی تھی۔ ان مذہب بے زار لوگوں میں کتنا خبث بھرا ہے آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ اس جماعت کے ایک شخص نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ انہیں بھی کرپشن کی اجازت دی جائے۔ یہی لوگ ہیں جو امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دے کر دکھاوے کے لیے احتجاج کرتے رہے: قتل کرتا ہے ہمیں اور وہ قاتل بھی نہیں بے حسی وہ ہے کہ ہم رحم کے قابل بھی نہیں یہی ماڈریٹ ہیں جو جمعیت والوں کو غیر ت بریگیڈ کا طعنہ دیتے رہے ہیں اور ان کے نزدیک یہ غیرت و غیرہ ایک سوچ کا نام ہے۔ ایسے الفاظ کچھ احمقوں نے تراش رکھے ہیں۔ چلیے آخری بات یہ کہ شفقت محمود کی شہرت کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ بچے سکولوں کے باہر اور اندر نعرے لگا رہے تھے۔ جب تک سوچ چاند ررہے گا شفقت تیرا نام رہے گا۔ ایک بچے نے تو لکھا کہ شفقت تیری خیر ہو۔ اللہ کرے تجھے سستا فروٹ ملے۔ نعروں میں موڈی فائیڈ نعرے بھی تھے۔ شفقت تیرے جانثار بے شمار بے شمار۔ ہائے ہائے بچوں کی معصومیت بچپن بھی کیسا ہوتا ہے۔ مستقل کے تفکرات سے بے نیاز۔ یہی بچے بڑے ہو کر اپنا بچپن یاد کریں گے تو انہیں شفقت محمود بھی یاد آ ئیں گے اور ان کی شفقت بھی۔ ویسے تو بقول پروین شاکر بچے چالاک ہیں کہ: جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے