وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لئے نیشنل ایکشن پلان بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ’’معصوم بچوں کا جنسی استحصال پورے معاشرے کے لئے باعث شرم اور افسوسناک ہے۔ حکومت بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہر ممکن اقدام کرے گی‘‘ بچوں کے خلاف جرائم کے انسداد کی خاطر حکومت کا فیصلہ یقینا ان کروڑوں والدین کے لئے باعث اطمینان ہو گا جو معاشرے کو اپنے بچوں کے لئے غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ تمام بچوں کو یہ حق حاصل ہے کہ انہیں ہر طرح کے تشدد‘ استحصال اور ظلم سے محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔ دنیا بھر میںان ممالک کو پسماندہ اور غیر مہذب تصور کیا جاتا ہے جہاں بچے محفوظ نہ ہوں۔ پاکستان میں ہر نسل علاقے اور پس منظر کے حامل بچے اور بچیاں ظلم کا شکار ہیں۔ وہ بچے جو کسی جسمانی و ذہنی معذوری کا شکار ہیں، کسی افلاس زدہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، یتیم ہیں، گلیوں اور سڑکوں پر مزدوری یا کسی اور وجہ سے زیادہ وقت گزارتے ہیں، ان کا ظلم کا شکار ہونے کے امکانات دوسرے بچوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ جن علاقوں میں مسلح تنازعات ہوں وہاں بھی بچوں کے خلاف جرائم بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں بچوں کے خلاف جرائم میں خطرناک حد تک شرح اضافہ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بچوں کے جنسی استحصال کی لگ بھگ تمام شکلیں فروغ پا رہی ہیں۔ گھریلو کام کاج کرنے والے بچوں پر ظلم کے واقعات‘ اساتذہ اور والدین کی جانب سے بچوں پر تشدد، کام کرنے والی جگہ اور ان کے اغوا و قتل کے واقعات پریشان کن ہیں۔ سابق حکومتوں نے اس طرح کے واقعات سے نبرد آزما ہونے کے لئے قانون سازی میں غفلت برتی۔ مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں کے دبائو پر کچھ قوانین وضع ہوئے لیکن چونکہ اس معاملے کو حل کرنے کا عزم اور استعداد انتظامی مشینری میں موجود نہ تھی اس لئے قوانین پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ بچوں کے خلاف جرائم کا مطالعہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ خطرہ صرف اجنبی اور ناواقف افراد سے نہیں ہوتا بلکہ اکثر و بیشتر قریبی رشتہ دار اور والدین بھی قصور وار نکلتے ہیں۔ محافظ‘ اساتذہ ‘ ملازمین‘ قانون نافذ کرنے والے اہلکار اور نان سٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے بچوں پر مختلف النوع مظالم دیکھنے میں آتے رہے ہیں۔ ہمارے سماج میں جس بات نے تشویش پیدا کر رکھی ہے وہ بچوں کے خلاف جنسی جرائم اور پھر معصوم بچوں کا قتل ہے۔ اس طرح کے واقعات 3ماہ کی عمر کے بچوں سے لے کر دس بارہ برس کے بچوں کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ سن 2015ء میں قصور کے نواحی گائوں حسین خان والا میں ایسے گروہ کا انکشاف ہوا جس نے بہت سے بچوں کے ساتھ بدفعلی کی ویڈیوز بنا رکھی تھیں۔ ان ویڈیوز کے ذریعے یہ گروہ مظلوم بچوں اور ان کے خاندانوں کو بلیک میل کرتا تھا۔ اس معاملے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کوئی ایسی رپورٹ تیار نہ کی جس کی بنیاد پر آئندہ کے لئے اس گائوں یا دوسرے علاقوں میں اس طرح کے جرائم کو روکنے کا انتظام کیا جا سکتا۔ اس گائوں اور قصور شہر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات 2017ء میں اس وقت دوبارہ شہ سرخیوں میں آئے جب سات سال کی معصوم بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس واقعہ نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ قاتل پکڑا گیا۔ اسے موت کی سزا دیدی گئی لیکن ساتھ ہی قانونی عمل کے کئی سقم سامنے آئے جب معلوم ہوا کہ اسی طرح کے ایک مقدمے میں جس نوجوان کو قصور وار قرار دے کر پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا وہ بے گناہ تھا اور اس کا قصور وار بھی ملزم عمران تھا۔ سرگودھا میں گزشتہ برس ایک شخص کے تعلیمی ادارے پر چھاپہ مارا گیا۔ سینکڑوں بچوں کی ویڈیوز پکڑی گئیں۔ اس شخص کی گرفتاری غیر ملکی ایجنسیوں کی اطلاع پر ہوئی۔ اس کے بعد کئی دوسرے شہروں سے بھی ایسے ہی جرائم کی خبریں آتی رہیں۔ چند ماہ قبل قصور ہی کے علاقے چونیاں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے انہیں قتل کرنے کا عادی مجرم پکڑا گیا۔ زینب قتل کے بعد پنجاب میں بچوں کے تحفظ کے لئے زینب ایکٹ بنایا گیا مگر تاحال یہ قانون معاشرے میں دندناتے درندوں کو قابو کرنے میں ناکام دکھائی دے رہاہے۔ جب ہم بچوں کے تحفظ کے لئے پالیسی کی بات کرتے ہیں تو اس میں صرف جنسی استحصال اور جان کا تحفظ نہیں بلکہ ان کی تعلیم‘ ان کی صحت‘ انہیں غربت کی گرفت سے نکالنا اور ان کی مکمل بہبود بھی پیش نظر رکھنی ہو گی۔ پاکستانی قوم اپنے مزاج میں ایک مزاحمت کار اور جنگجو ہے۔ دہشت گردی نے ہمارے نظریات‘ ہمارے سماجی ڈھانچے اور انتظامی حلقوں میں اپنے حامی تلاش کر لئے تھے۔ دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا تو ساری سیاسی و سماجی قیادت ایک جگہ بیٹھی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل میں کردار ادا کیا۔ اس پروگرام نے بجا طور پر معاشرے میں قیام امن کے ضمن میں اہم کردار ادا کیا۔ بچوں کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لئے ایک نیانیشنل ایکشن پلان خوش آئند ہو گا جس میں کچھ امور کو لازمی شامل ہونا چاہیے۔ بچوں سے زیادتی کے معاملات پر زیرو ٹالرنس‘ بچوں کے حقوق اور مفادات کا یقینی تحفظ‘ بچوں کے خلاف جرائم کے مقدمات کی تفتیش میں بچوں کو پہلی ترجیح دی جائے‘ بچوں کو ان کے حقوق اور قانونی اختیارات کے متعلق آگاہ کیا جائے۔ بچوں کے تحفظ سے متعلق ضابطوں کو تمام اداروں‘ تنظیموں‘ انتظامی ڈھانچوں اور طریقہ کار میں اولیت دی جائے۔ ماہرین کی مشاورت سے یہ نیشنل ایکشن پلان صحیح طور پر نافذ ہوا تو اسے ایک اعلیٰ سماجی و قومی خدمت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔