مکرمی!آج کل کے والدین بچوں کے معاملے میں بہت زیادہ حساس ہیں۔۔۔وہ بچوں کے سوالات کا بھی نہ صرف سختی سے جواب دیتے ہیں بلکہ ان کو مارپیٹ کر کے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ کا بچہ اپنے ہم عمروں کے ساتھ دوستانہ طریقے سے مانوس ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ کچھ بچے جن میں فنکارانہ صلاحتیں ہوتی ہیں۔لیکن وہ زیادہ وقت بیکار کاموں میں صرف کرتے ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟یاد رکھیں۔بچپن کی مار بچوں کی صلاحیتوں کو ختم کر دیتی ہے۔۔۔اگر آپ مسلسل بچوں کے بارے میں پریشان رہیں گے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ خود الجھن اور پریشانی کا شکار ہو جائیں گے۔۔۔ اس لیے بچوں کی حرکتوں کی وجہ سے جذبات میںنہ آئیں بلکہ ٹھنڈے دل سے ان کی باتوں پر غور کریں۔بچوں کے ماہرڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ والدین خوش باش یا چڑچڑے بچے کا اندازہ تین سال کی عمر تک لگا سکتے ہیں۔۔۔اگر اس کی صحت اچھی ہے اور وہ اپنے بچے سے کافی دیر تک کھیلتا رہتا ہے ماں باپ کی توجہ کے بغیر تو یہ اچھی بات ہے۔۔۔آپ اپنے بچے کو بہت زیادہ توجہ دے کر اپنا محتاج نہ بنائیں۔۔۔اس کی شخصیت بنانے میں اس کی مدد کریں گھر کے ماحول کو پر سکون رکھیں کیونکہ ماں باپ ہی بچوںکا آئیڈیل ہوتے ہیں۔بچے کو تیرہ سال کی عمر تک والدین کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کے بعد وہ اپنا وقت گزارنیکا خود فیصلہ کر لیتے ہیں، اس وقت اس کی مصروفیت پوچھیں مگر بلاوجہ روک ٹوک نہ کریں۔ چھٹی کے دن بچوں کو گھمانے ضرور لے جائیں۔ بچوں کی بہتر نشوونما کے لیے ان کی غیر محسوس طریقے سے مدد کریں تاکہ ان میں اچھے انسان بننے کی صلاحتیں پیدا ہو۔عموماً پہلی بار والدین بننے والے اپنے بچے کے حوالے سے بہت جلد غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ بچے کوکیسے ایک مکمل اور اچھا انسان بنائیں۔۔۔ وہ اپنا زیادہ وقت بچے کو مختلف باتیں سمجھاتے ہوے گزارتے ہیں۔ بچوں کو ہر وقت نصیحت نہ کریں۔ بچوں کی بے عزتی نہ کریں۔ زیادہ بلند آواز سے بچوں سے بات نہ کریں۔بچوں کو سزا دینے کے بجائے سمجھائیں۔ ( مولانا محمداحمد ضیا)