پچھلے آٹھ سال سے میری رہائش این اے 59 میں ہے جو 2013ء کے انتخابات میں این اے 52 تھا۔ ظاہر ہے ووٹ بھی اسی حلقے میں ہے۔ یہ ویسے بھی ملک کے اہم حلقوں میں شمار ہوتا ہے۔یہاں چوہدری نثار علی خان کا راج آ رہا ہے۔اس حلقے سے ان کا تعلق اتنا ہی رہا ہے کہ ہر الیکشن سے قبل وہ یہاں تشریف لاکر پوچھتے ہیں ’’آپ کی اہم ترقیاتی ضروریات کیا کیا ہیں ؟‘‘ لوگ کام بتا دیتے ہیں، وہ کام الیکشن سے قبل کروا کر اگلے پانچ سال کے لئے چلے جاتے ہیں اور مڑ کر نہیں آتے۔ پھر بھی لوگ انہیں منتخب کرتے آئے ہیں کیونکہ راولپنڈی نون لیگ کا گڑھ ہے، یہاں لوگوں کی اس جماعت سے وابستگی غیر مشروط قسم کی ہے۔ ہرچند کہ مسلم لیگ نون کے اس اہم ترین قلعے میں پچھلے انتخابات کے دوران پی ٹی آئی اور شیخ رشید نقب لگانے میں کامیاب رہے اور پنڈی ڈویژن کی سات میں سے قومی کی دو نشستیں وہ جیت گئے مگر حالیہ صورتحال یہ ہے کہ اپنی وہ سیٹیں بچانے کے حوالے سے نہ تو شیخ رشید پر امید ہیں اور نہ ہی پی ٹی آئی۔ نون لیگ کے اس اہم قلعے سے عمران خان اور شیخ رشید احمد دونوں ہی تیرہ تیرہ ہزار کے مارجن سے جیتے تھے جو واضح مارجن ضرور تھا مگر بڑا مارجن ہرگز نہ تھا۔ پچھلے پانچ سال کے دوران یہاں نواز حکومت میٹرو بس جیسا بڑا پروجیکٹ کرچکی ہے اور اس شہر میں اور بھی بہت سے کام کئے گئے ہیں جبکہ نواز شریف کے بیانیے کو بھی یہاں خاص پذیرائی حاصل ہے۔ سو عمران خان اور شیخ رشید احمد کا خوف بے جا نہیں۔ لیکن نون لیگ اپنی یہ کھوئی ہوئی دو سیٹیں واپس حاصل کر بھی لیتی ہے تو اسے ایک نیا چیلنج اس بار چوہدری نثار علی خان کی صورت درپیش ہے جو دو سیٹوں سے بطور آزاد امیدوار کھڑے ہیں۔ اس بات میں تو اب کوئی شک و شبہ رہا ہی نہیں کہ جس طرح سینیٹ کے الیکشنز میں بلوچستان کا احساس محرومی ختم کرنے کے نام پر قوم سے ایک بے رحمانہ مذاق کیا گیا۔ کچھ اسی طرح کا تماشا آنے والے انتخابات میں بھی لگانے کا پکا منصوبہ ہے۔ ہر چند کہ عمران خان کا یہ خیال ہے کہ جنرل مشرف نے 2002ء اور جنرل کیانی نے 2013ء میں ان کے جس احساس محرومی کا مداوا نہ کیا تھا وہ اس بار تشنہ کام نہ رہے گا۔ جس طرح بلوچستان کا احساس محرومی ختم کیا گیا عین اسی طرح اس بار ضرور بالضرور ان کا احساس محرومی بھی ختم کردیا جائے گا۔ سوچنے پر پابندی تو نہیں سو خان صاحب اگر اس بار بھی خوابوں کی دنیا میں رہنا چاہیں تو کون روک سکتا ہے، لیکن ہدف اس بار یہی لگتا ہے کہ مطلوب ہنگ پارلیمنٹ ہے۔ اس تاثر میں اہم ترین کردار اس چیز کا ہے کہ چوہدری نثار علی خان اپنی جس پینتیس سالہ وفاداری کو بظاہر میاں نواز شریف کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ درحقیقت رہی تو کسی اور کے ساتھ ہے۔ سو چوہدری نثار علی خان اپنی پینتیس سالہ وفاداری کا ذکر کرتے ہوئے مخاطب ضرور نواز شریف سے ہی ہوتے ہیں مگر سناتے انہی کو ہیں جن سے یہ پینتیس سالہ وفاداری نبھائی گئی۔ اس تاثر کو اس وقت زبردست تقویت ملی جب راجہ قمر الاسلام کو این اے 59 سے نون لیگ کا ٹکٹ جاری ہوتے ہی نیب نے گرفتار کر لیا۔ ماشاء اللہ چوہدری نثار علی خان بہت ہی فولادی شخصیت کے مالک ہیں۔ چوہدری صاحب نے مریم نواز شریف کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا ’’بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں‘‘ چوہدری نثار علی خان کو قدرت ایک 12 سالہ بچے کے سامنے الیکشن کے لئے کھڑا کردیا ہے۔ این اے 59 سے اب راجہ قمر الاسلام کو چھوڑ بھی دیا گیا تو لوگ اس کا یہی مطلب لیں گے کہ چوہدری نثار علی خان کو بچے کے ہاتھوں خفت سے بچانے کے لئے انہیں چھوڑ ا گیا۔ بارہ سالہ راجہ سالار الاسلام کا اعتماد حیران کن ہے۔ اس بچے کو راتوں رات اپنے والد کی جگہ انتخابات جیسے مشکل ترین میدان میں اترنا پڑا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب اس حلقے سے چوہدری نثار علی خان جیت بھی جاتے ہیں تو دنیا یہی کہے گی کہ فولادی گردن والے چوہدری نثار علی خان ایک بارہ سالہ بچے سے جیت گئے۔ اور اگر جیت اس بچے کی ہوئی تو اس کے دو فائدے ہوں گے، ایک لانگ ٹرم دوسرا شارٹ ٹرم۔