قارئین! بکرے نے اپنے مدلّل جوابات کے ذریعے انسانی حرکات اور اس کے قول و فعل میں تضادپہ کچھ ایسے تابڑ توڑ حملے کیے کہ کچھ دیر تو انسان میاں بھونچکے سے ہو کر رہ گئے، جب حواس کسی قدر بحال ، اپنے رویے پہ ملا ل اور جواب دینے کی سکت سے مالامال ہوا تو وہ کچھ اس انداز میں گویا ہوا: آدمی: ’’واہ بھئی واہ بکرے میاں! تو گویا تم صرف چرب زبان ہی نہیں ، باذوق بھی واقع ہوئے ہو۔ اگر میرا بس چلتا تو میں تمھیں بکروں کی دنیا میں ’ ملک البکرائ‘ کا سا شان دار لقب الاٹ کروا دیتا۔ روزنامہ ’چراگاہ‘ میں تم سے کالم لکھواتا، کسی سرکاری قسم کے ایوارڈ کا بھی اہتمام کرواتا، جو ہمارے ہاں کارکردگی کی بجائے زبان اور خدمت درازی کی بنا پر آسانی سے الاٹ ہوتے ہیں۔ پھر بکرا منڈیوں اور سبزہ زاروں میں نت نئے مشاعروں کا اہتمام کرواتا، جہاں رنگا رنگ کے بکرے شاعر ممیاتی ہوئی غزلیں ترنم سے سناتے اور تمھاری نسل کی کوئی حسینہ بکری اپنی ساٹھ سہیلیوں کے ہمراہ پورے ناز و انداز کے ساتھ کسی بکریاتی چینل پہ لہک لہک کے گاتی: ہم تم ہوں گے ، نخرے ہوں گے رقص میں سارے بکرے ہوں گے بکرا: ’’ واہ رے انسان!تو ہمیشہ سے ایسے ہی کاموں کے دعوے کرتا آیا ہے کہ جن پہ تیرا ذرا بس نہیں چلتا۔ کبھی زندگی میں کوئی ایسا کام بھی کر گزرو جو مکمل طور پر تمھارے بس میں ہو۔ تمھارے اشارۂ ابرو کا محتاج ہو۔‘‘ آدمی: ’’ مثلاً؟‘‘ بکرا: ’’مثلاً تم صرف اتنا ہی کر لو کہ اس سال قربانی کرنے کا ارادہ ترک کر دو! اس سے ہم دونوں کی بچت ہو جائے گی… تمھاری مالی، میری جانی۔‘‘ آدمی: ’’بکرے میاں! تمھیں پتہ نہیں کہ اس عید پہ قربانی کرنے کا کتنا زیادہ ثواب ہے؟ ہم نے تو تمھاری بے پناہ محبت میں اس اچھی بھلی عید الضحیٰ کا نام ہی بکرا عید رکھ چھوڑا ہے!! ‘‘ بکرا: ’’تمھارے ہی آس پاس کے لوگ آئے دن بتاتے رہتے ہیں کہ ثواب کمانے کے ہزاروں طریقے اور بھی ہیں؟‘‘ آدمی: ’’کہتے تو وہ بھی بالکل ٹھیک ہی ہیں۔‘‘ بکرا: ’’بہت خوب! تو گویا میں سمجھوں کہ اب کی بار میری خلاصی ہو گئی؟ آدمی: ’’باتیں تو تمھاری بھی دل کو لگتی ہیں بکرے میاں! لیکن میں اپنے بیوی بچوں کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ بکرا: ’’کسی کی گردن کٹ جانے سے ناک کٹ جانا تو پھر بھی نسبتاً کم نقصان دہ بات ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ اس دفعہ تھوڑی سی ہمت کر کے اپنی یہ چپٹی اور بھدی سی ناک ہی کی قربانی دے دیں۔ کم خرچ بالا نشیں۔‘‘ آدمی: ’’یار بکرے مَیں تمھیں کیسے سمجھاؤں؟ درونِ خانہ کے قصے تمھارے گوش گزار کیسے کروں کہ اس قربانی کے لیے آدھے پیسے میری بیوی اپنے دبئی پلٹ بھائی سے ادھار مانگ کے لائی ہے۔‘‘ بکرا: ’’ پھر تو مسئلہ ہی آسان ہو گیا کہ سیانے کہتے ہیں : مقروض آدمی پہ قربانی سرے سے واجب ہی نہیں ہے۔‘‘ آدمی: لیکن بھائی بکرے! ان دو دنوں میں ہمارے بچے صبح سے شام محلے والوں پہ کس بات کا رعب ڈال سکیںگے؟ بکرا: بچوں کو ایک دو دن چڑیا گھر یا سفاری پارک وغیرہ کی سیر کرادیں، تاکہ وہ وہاں رنگ رنگ کے جانور وں سے اپنا دل پشوری کر سکیں۔ اور اگر مقصد محلے والوں پر رعب ڈالنا ہی ہے تو کوئی بندوق وندوق خرید کے لیے جائیں۔ بکرا: تو گویا مسئلہ ناک کا نہیں پیٹ کا ہے؟ آدمی: تم جو بھی سمجھ لو بکرے میاں ! میں تو اتنا جانتا ہوں کہ یہ مسئلہ ناک سے زیادہ خطرناک اور پیٹ سے زیادہ پین فُل Painfull ہے۔ بکرا: وہ کیسے؟ آدمی: تم نہیں سمجھو گے نادان جانور، تم مجھے صرف اتنا بتاؤ کہ تمھیں کبھی کسی بیوی نام کی مخلوق سے واسطہ پڑا ہے؟ بکرا: اس مسئلے کا بیوی کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا تعلق ہے؟ آدمی: تعلق ہے بھولے بادشاہ! لیکن یہ مسئلہ ہے اتنا نازک، گھمبیر اور حسّاس ہے کہ بغیر شادی والوں کی سمجھ میں آ بھی نہیں سکتا، جس تن لاگے سو تن جانے۔ ۔ بس تم یوں جان لو کہ عید کے دن گوشت کے بغیر ایک منٹ بھی نہیں گزارا جا سکتا۔ بکرا: لیکن میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ تمھارے ہاں جو شخص قربانی کا جانور ذبح نہیں کرتا ، ارد گرد کے لوگ اس کا زیادہ خیال رکھتے ہیںاور یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے لوگ قربانی والوں سے زیادہ سٹاک جمع کر لیتے ہیں اور ذخیرہ اندوزی کے مرتکب بھی قرار نہیں پاتے کیونکہ ان پر کسی کو گوشت دینا واجب ہی نہیں سمجھا جاتا ۔ اس طرح وہ عزیزوں ، رشتہ داروں کی گوشت کم دینے یا نہ دینے کی ناراضگی سے بھی بچ جاتے ہیں۔ آدمی: بات تو تم نے واقعی بڑے پتے کی کہی ہے لیکن وہ جو میں نے اپنے ڈراؤنے افسر کے گھر سالم ران پہنچانے کا وعدہ کر رکھا ہے، اس کا کیا بنے گا؟ بکرا: آپ کسی اور کے گھر سے آئی ہوئی ران بھی تو افسر کو پیش کر سکتے ہیں؟ آدمی: لیکن وہ جس سماجی تنظیم کو میں نے کھال دینے کی ہامی بھری ہوئی ہے ،ان کو اگر عید کے روز کھال نہ ملی تو وہ میری کھال کھینچنے پر اُتر آئیں گے۔ بکرا: اوہ میرے مظلوم بھائی! تم اس معاملے میں مجھ سے بھی زیادہ مجبور اور لاچار دکھائی دیتے ہو۔ اس لیے میں مزید کسی بحث مباحثے میں پڑے بغیر ہر طرح کی قربانی دینے کو دل و جان سے تیار ہوں: ع تُو مشقِ ناز کر خونِ دو عالم میری گردن پر (ختم شُد)