حکومتی وزیروں کا یہ دعویٰ تو بالکل درست نکلا کہ بجٹ’’غریب فرینڈلی‘‘ ہو گا قصائی سے بکرے نے پوچھا یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے ؟ اس نے کہا ’’بکرا فرینڈلی چھری‘‘ ہے۔ بکرا خوشی خوشی اس فرینڈلی چھری سے ذبح ہونے کو تیار ہو گیا۔ یہ سچ بات ہے کہ لیکن المیہ یہ ہے کہ سچ کا اعتراف کرنے والے زیادہ نہیں ہیں۔ ایک نامعقول پڑوسی نے کہا لوگو دیکھو ہتھوڑا گروپ کی حکومت آ گئی۔ کوئی پوچھے کیا ہتھوڑا گروپ ’’فرینڈلی ‘‘ نہیں ہو سکتا۔ ضیاء الحق کے دورمیں یہ ’’غریب فرینڈلی‘‘ گروپ سرگرم ہوا تھا۔ فٹ پاتھوں پر بے چینی کی نیند سونے والوں کو ایک ہی ضرب سے چین کی نیند سلا دیتا تھا۔ ہمیشہ کے چین کی نیند۔ چیئرمین ایف بی آر نے بالکل بجا طور پر یہ سوال چیلنج کے طور پر پوچھا کہ بنائو ہم نے غریب پر کون سا ٹیکس لگایا ہے۔ آپ ایک سے زیادہ ٹیلی ویژنوں پر یہ مہر حق چیلنج دیتے پائے گئے۔ ظاہر ہے یہ سب جانتے ہیں کہ غریب کچھ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ پہنتا ہے اوڑھتا ہے‘ اس پر کون اور کیسے ٹیکس لگا سکتا ہے، شبر زیدی تو بالکل ہی نہیں۔ اب تو دال بھی امیر ہو گئی ہے۔ یہ ’’منہ‘‘ والی پھبتی کبھی صرف دال مسور کے ساتھ لگتی تھی۔ اب ماش کی دال کے ساتھ بھی لگتی ہے شبر زیدی صاحب کے فرینڈلی بجٹ کے بعد مونگ کی دال بھی امیرانہ ہو گئی ہے، چنانچہ دو نئے محاوروں کا اضافہ ہو گیا۔ یہ منہ اور ماش کی دال‘ یہ منہ اورمونگ کی دال۔ موخر الذکر دال ایک سو روپے سے چھلانگ لگاکر سیدھی ایک سو پچاس روپے کے سٹینڈ پر کھڑی ہو گئی ہے۔ غریب اب یہ بھی نہیں کھا سکتا، چنانچہ زیدی صاحب کا فرمانا ایک بار پھر برحق ثابت ہو گیا کہ بتائو غریب پر کون سا ٹیکس لگا ہے۔ ایک صاحب روہانسے ہو کر بتانے لگے۔ مٹن تو ہماری حد تک تو خواب و خیال کی بات ہے لیکن نئے بجٹ کے بعد چکن بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ عرض کیا‘ ارے نہیں بھئی صرف سترہ فیصد مہنگا ہوا ہے۔ اڑھائی پونے تین سو کی جگہ تین سوا تین سو کا ملے گا۔ تھوڑے سے زیادہ خرچ کر لینا کیا فرق پڑتا ہے۔ بولے ہم تو اتنے بھی نہیں دے سکتے لیکن بات یہ نہیں ہے۔ چکن کے ’’فیڈ‘‘ پر 45فیصد ٹیکس لگا ہے اس کا کیا؟ اب تو چکن ساڑھے چار سو میں بھی شاید ہی ملے۔ ٭٭٭٭٭ دس ماہ کے دوران حکومت نے کیا کیا ہے۔ غریب اور مڈل کلاس کی آمدنی آدھی کر دی ہے نیا بجٹ ہی اتنی مہنگائی کر دی کہ پچاس ہزار کمانے والا پچیس ہزار کی قوت خرید پر آ گیا اب بجٹ میں اتنے ٹیکس لگے ہیں کہ دودھ دہی سے لے کر آٹے دال تک ہرشے میں سے پچیس فیصد مہنگی ہو گئی۔ بجٹ کے پیش کار وزیر نے فرمایا‘ ہم نے چینی صرف تین روپے 65پیسے مہنگی کی ہے۔ صرف کے لفظ پر داد دیجیے۔ ’’اس صرفگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا‘‘۔ چینی سے مٹھائی بھی بنتی ہے اور بیکری کا سامان بھی۔ چلئے یہ تو عمرانی ڈاکٹرائن کے مطابق’’لگژی آئٹمز‘‘ ہوئیں لیکن چینی سے بہت ساری انگریزی اور یونانی دوائیں بھی بنتی ہیں۔ مثلاً کھانسی کے شربت‘ بخاراور درد کش شربت وغیرہ اب غریب کو چاہیے کہ کھانسی ہونے ہی نہ دے کیونکہ ہو گئی تو مہنگا سیرپ کیسے خریدیں گے۔ کھانسی سے پیشگی بچائو کے لئے انہیں چاہیے کہ دن میں دو بار بھنی یا تلی مچھلی کھایا کریں کھانسی ہو گی نہ مہنگا شربت لینا پڑے گا۔ ٭٭٭٭٭ بجٹ کے بعد کیا ہو گا۔ بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے ہاتھ کنگن کو آرسی کیا‘ آٹے دال کا بھائو گھر بیٹھے معلوم ہوجائے گا جس کی نانی زندہ ہے اسے بھی اس کی یاد آ جائے گی۔ رات ہی ایک چینل پر ویڈیو کلپ دیکھا۔ ڈاکوئوں نے ایک موٹر سائیکل سوارکو اس وقت لوٹ لیا جب وہ تنخواہ لے کر نکلا ہی تھا۔ تنخواہ بھی گئی‘ موبائل بھی۔ ڈاکوئوں کے جانے کے بھی وہ دیر تک کھڑا کبھی خود کو دیکھتا کبھی گلی کو دیرتک بس یہی کرتا رہا۔ بجٹ کے بعد قوم بھی یہی کرنے والی ہے۔ ٭٭٭٭٭ سر بازار بھنگڑا فرمانے والے ان صاحب کی یاد یوں بھی آئی کہ غریب مکائو مڈل کلاس کو غریب بنائو اور ساری دولت اشرافیہ کی تجوریوں میں ڈال دو والا سہ نکاتی مشن انہی ذات غیر شریف نے شروع کیا تھا۔ اس مشن میں انہیں شوکت عزیز ‘ جہانگیر ترین ‘سلمان شاہ کی معاونت حاصل تھی۔ ذات غیر شریف کی جگہ خاں صاحب نے لے لی۔ ترین بھی موجود‘ سلمان شاہ بھی ‘ حفیظ شیخ بھی عظیم مشرفی نکتہ ہیں۔ اور قبلہ گورنر سٹیٹ بنک کو شوکت عزیز کی جگہ سمجھ لیجیے۔ مشن وہی ہے جو قبلہ بھنگڑے والی سرکار ادھورا چھوڑ گئی تھی کسی تجزیہ نگار نے کہا معیشت کا ’’سیسی‘‘ ماڈل نافذ ہو گیا ہے عرض کیا کہ آپ سے سخت اختلاف کرتا ہوں پوچھا کیوں۔؟عرض کیا سیسی ماڈل یہ تھا کہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے 30فیصد مصریوں کی تعداد بڑھا کر 60فیصد کرنی ہے اور وہ انہوں نے کر دی۔ ہمارا ماڈل بہت آگے کی شے ہے ہم تو 80فیصد سے زیادہ کی شرح کا ٹارگٹ حاصل کرنے والے ہیں۔ جی ہاں۔ اللہ بھلا کرے۔ ٭٭٭٭٭ بجٹ کی بات اتنی بڑھی کہ گرفتاریوں کی بات رہی جاتی ہے۔ چڑیا والے تجزیہ نگار نے تین چار روز پہلے اپنے ٹی وی پروگرام میں بتایا تھا کہ چیئرمین نیب کے خلاف ویڈیو نشر کرنے والا کھیل رنگ لے آیا ہے اور اب اطلاع ہے کہ زرداری‘ حمزہ اور شاہد خاقان پکڑے جائیں گے۔ زرداری اور حمزہ تو پکڑے گئے اتنی بات تو ٹھیک ثابت ہو گئی کروڑوں نوکریاں دینے والے فیصل واوڈا نے بتایا کہ اگلی گرفتاری شاہد خاقان کی ہو گی۔ یعنی باقی ایک تہائی اطلاع بھی سچی ہونے والی ہے۔ ایک اطلاع ہے کہ بلاول کو پکڑنے کا فیصلہ بھی ہو گیا ہے اور پھر مریم نواز کی باری آنے کا امکان بھی ہے۔ اور یہ اطلاع تو بہرحال’’اعتماد سازی والا اقدام‘‘ سمجھی جائے گی ۔