ایک دن کے وقفے کے بعد قوم سے پھر خطاب فرمایا۔ برسبیل تذکرہ ‘ ریاست کا ہر خطاب نماز ہی کے وقت کیوں ہوتا ہے؟مطلب نماز سے آدھ گھنٹہ پہلے شروع ہوتا ہے اور اتنے ہی وقت کے بعد ختم ہوتا ہے۔ بیچ میں سننے والوں کی نماز بھی لاپتہ ہو جاتی ہے۔ شاید کوئی باطن حکمت ہو۔ اس بار غربت کے خاتمے کا پروگرام عنوان تھا۔ پروگرام کا خلاصہ یہ تھا کہ انڈے دیں گے‘ بچے دیں گے‘ مرغیاں دیں گے‘ بکریاں دیں گے۔ باقی کا اعلان تو وہ کئی ماہ پہلے بھی کر چکے۔ اس بار بکریوں کا اضافہ تھا۔ شاید کسی کی فرمائش پر۔ یہ پروگرام تو ٹریک ون کا تھا۔ سنا ہے مرغیوں والا پراجیکٹ تو شروع ہونے سے پہلے ہی فلاپ ہو گیا۔ اب بکریوں کا دیکھیے کیا ہو۔ ایک اور اضافہ غریبوں کو ٹھیلے لے کر دینے کا ہے۔ کیا یہ وہی ٹھیلے تو نہیں جو آتے ہی پہلی فرصت میں دسیوں ہزار کی تعداد میں تجاوزات کے نام پر توڑ پھوڑ دیے گئے تھے! اچھا نئے لے کر دینے تھے اس لئے پرانے توڑ دیے ہوں گے۔ ٹریک ٹو پلان کی خبریں اور طرح کی ہیں۔ سرفہرست یہ کہ وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کی ہدایت پر اداروں کی تنظیم نو کا زبردست منصوبہ بنایا ہے۔ بہت بڑی تعدادمیں سرکاری اداروں کے ملازم فارغ کر دیے جائیں گے اور بعض ادارے‘ بیکار قسم کے‘ سرے سے ختم کر دیے جائیں گے۔ وزیر اعظم نے اس نیک کام کے لئے خوب نیک نام ڈاکٹر عشرت حسین کو ٹاسک دے دیا ہے۔ آتے ہی چھ لاکھ ملازم فارغ کئے اور کروائے گئے۔ اس بار گنتی زیادہ رہی ہو گی۔ شاید سات لاکھ ڈاکٹر عشرت صاحب کو صحیح گنتی نہ ہو گی۔ اورختم کن بیکار اداروں کو کہا گیا جائے گا۔ غیر ضروری اداروں کی فہرست خاصی لمبی ہے۔ پہلا ریلوے کا محکمہ‘ ہائی ویز کا محکمہ‘ تعلیم کا محکمہ، صحت کا محکمہ وغیرہ وغیرہ۔ ٭٭٭٭٭ دو رحم دل وزیروں نے پریس کانفرنس کی ہے اور فرمایا ہے کہ گیس کے نرخ بڑھاتے ہوئے کوشش کریں گے کہ غریبوں پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اس لئے نرخوں میں ہونے والا اضافہ مجوزہ سفارشاتی 147فیصد سے کم ہو گا۔ کتنا کم147فیصد زیادہ ہے۔ 146فیصد ٹھیک رہے گا‘ غریبوں پر ایک فیصد بوجھ کم پڑے گا۔ دعائیں دیں گے۔ ٭٭٭٭٭ ایک وفاقی وزیر کے بارے میں تو یہ کہانیاں آ چکی ہیں کہ انہوں نے اپنی غربت دور کرنے کے لئے اربوں روپے کی ’’ایمانداری‘‘ کی ہے۔ عمر ایوب کے حوالے سے کوئی خبر نہیں آئی۔ ادھر این ایل جی کی قیمت بھی بڑھنے کی اطلاع ہے۔ ریاست مدینہ نے غربت مکائو پروگرام کے لئے 80ارب مختص کئے ہیں۔ مطلب قومی خزانے سے اتنی رقم اور غائب ہونے والی ہے۔ یہ کہاں جائے گی ؟ این جی اوز کو۔ کتنی این جی اوز کی غربت ختم ہو گی۔ ابھی پتہ نہیں۔ ہاں ایک اور مستحق کی غربت بھی ختم ہونے کی راہ نکل آئی ہے۔ پروگرام کا ایک وزیر الگ سے بنایا جا رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ رپورٹ ہے کہ پاکستان میں نشیوں کی تعداد بڑھ کر 87لاکھ ہو گئی ہے۔ ایک الگ رپورٹ کے مطابق حالیہ مہینوں میں نشئی حضرات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ شیشہ سے آئس تک ہر نشے کا اشاریہ مثبت ہے۔ نشے کی منڈی میں مندی نہیں‘ تیزی ہے۔ چند ہفتے پہلے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ نشے کے خلاف مت لکھنا لیکن کل ایک اور دوست نے حوصلہ افزا اشارہ دیا۔ چنانچہ خیال آیا کہ اس ویڈیو کا احوال کیوں نہ لکھا جائے جو سوشل میڈیا پر خوب مقبول ہے۔ یہ پشاور کی میٹرو بس کا تااطلاع ثانی ادھورے منصوبے کی ویڈیو ہے۔ نامکمل ڈھانچے کے نیچے دور دور تک ‘ دور دور سے آگے مزید دور دور تک ارباب سرور حلقہ در حلقہ انبوہ در انبوہ بیٹھے دھواں اڑاتے نظر آتے ہیں۔ پہلی نظر میں لگتا ہے افغان مہاجروں کا دھرنا ہے‘ پھر مشاہدہ بتایا ہے کہ نہیں‘ ہجوم قدر داناں ہے۔ چادر اوڑھے‘ سر بنوڑھائے، دھواں دار مراقبوں میں مصروف ہے۔ پولیس قریب سے گزری ہے‘ دور کا سلام عرض کر کے نکل جاتی ہے کہ پکڑنے پر اپنے ہی دھڑ رگڑے کا اندیشہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پختونخواہ کی قابل ذکر آبادی یکسر تبدیل ہو گئی ہے‘ اسی طرح سے سڑکوں کے کنارے‘ پلوں کے نیچے‘ بند ہو چکے سکولوں کی عمارتوں میں، روحانی مراقبوںمیں مصروف رہتی ہے اور عمر طبعی سے بہت پہلے واصل بحق ہو جاتی ہے۔ اللہ اللہ عرفان و سلوک کی منزلیں۔ ٭٭٭٭٭ پشاور میٹرو اپنی جگہ ایک بے مثال و باکمال نمونہ ہے۔ بلکہ اسے گروتھ ریٹ بڑھنے کا ماڈل سمجھئے‘8ارب سے 22ارب کو پہنچا وہاں سے 36ارب کی منزل پر جا کر دم لیا‘ پھر پارے کی طرح تڑپا اور 50ارب کی منزل سر کی‘50سے ستر‘ پھر اسی‘90اور پورے سو ہو گیا اور اس کے بعد بیس ارب کی ایک اور پیڑھی طے کی لیکن مکمل کب ہو گا۔ کاتب تقدیر ہی کو پتہ ہو گا۔ کاتب تحریر کیا جانے۔ ٭٭٭٭٭ بلاول نے کہا ہے‘ حکمران اٹھارہویں ترمیم ختم کرنا چاہتے ہیں۔ پرانی بات ہے۔ اب نہیں چاہتے۔ خبر یہ ہے کہ سندھ کے 120ارب روپے وفاق نے کاٹ کر اپنے پاس رکھ لئے ہیں یعنی بحق وفاق ضبط کر لئے ہیں اور اٹھارہویں ترمیم اسے روک نہ سکی۔ اٹھارہویں ترمیم اتنی بے ضرر ہے۔ یہ تو اب پتہ چلا۔ اسے ختم کر کے کیا ملے گا‘ بے چاری ایک طرف بیٹھی وہی سے روٹی کھاتی ہے۔ کسی کا کیا لیتی ہے۔