اسّی ، نوے بلکہ مارچ 2016ء تک کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ سندھ کے شہری علاقوں کے بے تاج بادشاہ، مہاجروں کے ان داتا بانی ایم کیو ایم کے بارے میں لکھنا ،بولنا تو کیا ۔ ۔۔ اشاروں ،کنایوں میں بھی اس شہر کراچی میںکوئی حرف گیری کی جرأت بلکہ گستاخی کرسکے۔یقینا اس دوران ایک دو آوازیں ضرور اٹھیں ۔۔۔ اور اس کی نافرمانی کی انہیں سزا بھی ملی۔مگر سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کی اکثریت اور یہ اکثریت 99فیصد تھی ۔ ۔ جو قائد تحریک کو نہ صرف واحد نجات دہندہ سمجھتی تھی بلکہ ’’پوجنے‘‘ کی حد تک والہانہ عقیدت رکھتی تھی۔مارچ2016ء میں بانی ایم کیو ایم کے خلاف پہلی بڑی بغاوت سابق میئر کراچی سید مصطفیٰ کمال کی قیادت میں ہوئی ۔اس کا تفصیل سے ذکر بعد میں۔مگر ہاں،کراچی کی مضافاتی بستی لانڈھی سے بھی آفاق احمد ،عامر خان نے مہاجر قومی موومنٹ کے عزیز آباد مرکز 90پر پہلا پتھر بلکہ ’’پتھراؤ‘‘ کیا تھا اور جس کے ساتھ ساتھ سندھ کے شہری علاقوں میں ایک ایسا ریاستی آپریشن بھی شروع ہوا جس سے الطاف حسین اور مہاجر تحریک کا تو کیا بگڑتا۔ ۔ ۔ الٹا اس سخت گیر ریاستی آپریشن سے جو خون بہا ۔۔۔اس نے بانی ایم کیو ایم کی قیادت کو مزید مستحکم بلکہ مطلق العنانی کی حد تک پہنچا دیا۔یہی وہ زمانہ تھا جب کراچی کی سڑکوں پر لہراتے ہوئے بینروں سے یہ پیغام دیا گیا کہ : جو قائد کا غدار ہے،وہ موت کا حق دار ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ بلکہ 1984ء سے شروع ہونے والی مہاجر قومی موومنٹ کے عروج کی بے مثال داستان لکھنے کے لئے کتابیں نہیں ،جلدیں بھی کم ہوں گی۔یوں تو قیام پاکستان کے بعد لاکھوں مہا جرین کے جو لٹے پٹے قافلے آئے۔ ۔ ۔ اور جو سلوک بعد کے برسوں میں ایک کے بعد دوسری حکومتوں نے روا رکھا۔۔۔اُس سے ان کی محرومیوں اور مصائب میں تو اضافہ ہونا ہی تھا۔خاص طور پر 1965ء میں ایوب خان کی الیکشن میں کامیابی کے بعد اُن کے صاحبزادے محترم گوہر ایوب خان کی قیادت میں جو فاتحانہ جلوس مہاجروں کے گڑھ لیاقت آباد میں نکلا ،اور جس میں سینکڑوں مہاجروں کو خون میں نہلا کر اور ہزاروںگھروں کو جو اجاڑا ،وہ ایک ایسا تاریخی سانحہ تھا، جسے مہاجر قومی موومنٹ یا بعد میں بننے والی متحدہ قومی موومنٹ کا آغاز کہا جائے گا۔رہی سہی کسر ہمارے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور 1972-77ء نے پوری کردی ۔سندھ کے گورنر اورپھر وزیر اعلیٰ سردار ممتازعلی بھٹو کے دور میں ’’زبان ‘‘کے مسئلے پر جو فسادات ہوئے اور جس پر اس وقت ’’اردو کا جنازہ ہے بڑی دھوم سے نکلے‘‘ جیسی شاعری آگ کی طرح پھیلی۔ ۔ ۔ در اصل وہ بنیاد تھی جس پر 1984ء میں مہاجر قومی موومنٹ کی عمارت کھڑی ہوئی تھی ۔ آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن یعنی APMSOکی بنیاد کراچی یونیورسٹی میں رکھی گئی۔اور پھر جب اسلامی جمعیت طلبہ کی ڈنڈا فورس نے بانی ایم کیو ایم اور اُن کے نوخیز لوئر مڈل کلاسیوں کو کراچی یونیورسٹی سے نکال باہر کیا تو مہاجر قومی موومنٹ کا ظہور اور پھراُس کو عروج برسوں نہیں مہینوں میںجس طرح ہوا،اُس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میںتو ملتی نہیں۔ عام طور پر یہ بڑا پاپولر امپریشن ہے کہ فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے سندھ میں پیپلز پارٹی کو توڑنے کے لئے بے پناہ وسائل فراہم کئے۔ایسی سازشی کہانی یعنی Conspiracy theoryکوئی دستاویزی صورت میں توہوتی نہیں ۔ ۔۔ مگر چند ایسے عوامل ضرور تھے جس سے اس بیانیہ کو تقویت ملی ۔سو’’ ضیاء فیکٹر ‘‘ کو قطعاً نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر اصل میں بانی ایم کیو ایم اور اُن کے ساتھیوں نے پیپلز پارٹی کے دور سمیت ماضی کی حکومتوں میں ملازمتوں ، شہری مسائل کے حوالے سے جو ظلم و زیادتیاں ہوئیں۔۔۔ اُسے بانی ایم کیو ایم نے بڑی ذہانت سے و فطانت سے معروف اصطلاح میں exploitکیا۔بانی ایم کیو ایم اور ان کے ارد گرد پڑھے لکھے ریٹائرڈ مہاجر بیوروکریٹوں کے تھنک ٹینک نے شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات کو سامنے رکھتے ہوئے ’’سندھی و پنجابی‘‘حکمرانوں کے خلاف ایک ایسا مقدمہ تیار کیا جس میں چیختے ،چلاتے اعداد و شما رسے ثابت کیا گیا تھا کہ سب سے زیادہ ریوینیو دینے والے شہرکے باسیوں کی اکثریت سرکاری ملازمتوں سے تو محروم ہے ہی مگر یہاں کی کمائی بھی باہر والے کھا جاتے ہیں۔یوں جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1985ء میں پہلے بلدیاتی انتخابات ہوئے تو سندھ کے شہری علاقوں کی تمام بلدیات مہاجر قومی موومنٹ کے مرکز بن گئے۔اور پھر 1988-89ء میں ایم کیو ایم نے جو بے مثال کامیابی قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حاصل کی اس نے اسے سندھ کی دوسری اور وفاق میں تیسری بڑی پارٹی بنادیا۔ قومی و صوبائی اسمبلی کے تمام ارکان کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھا۔معروف معنوں میں کھمبے۔۔۔ جو پتنگ اور بانی ایم کیو ایم کے نام پر ایوان اقتدار میں سینہ ٹھونکتے ہوئے داخل ہوئے۔ 1988ء کے انتخابات میں گو کہ ایم کیو ایم کے قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد محض 16تھی ۔مگر پی پی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کو ان کے لئے نائن زیروکی دہلیز پر حاضری دینی پڑی۔وزارت عظمیٰ کا تاج پہننے کے لئے ایسے 52نکات پر دستخط کئے جن پر عملدر آمد ہونا ’’پہاڑ‘‘ کی چوٹی سر کرنے سے بڑا ٹاسک تھا۔نوے کی دہائی میں ایم کیو ایم کے بانی اسلام آباد کی حکومتوں کو گرانے اور بنانے میں باد شاہ گر کا کردار ادا کرتے رہے۔بانی ایم کیو ایم گو اٹھتے بیٹھتے ،سوتے جاگتے تو عزیز آباد کے 120گز کے گھر میں تھے مگر ان کا اپنے حامیوں سے برتاؤ حاکمانہ بلکہ شاہانہ تھا۔لاکھوں مہاجروں کی حمایت کے باوجود اُن کے موبائل فون میں محفوظ چند سو نوجوانوں کی ملیٹنٹ فورس ہی اصل میں اُن کی طاقت تھی۔بانی ایم کیو ایم کے کہے پر منٹو ں میں سندھ کے شہری علاقے ویران ہوجاتے ۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیااُن کے کہے ’’لفظ‘‘ کو صحیفے کا درجہ دیتا کہ اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میںوہ اپنے انجام سے آگاہ ہوتا تھا۔بانی ایم کیو ایم کی مٹھی میں پوری تین دہائی تک سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کا ماضی،حال اور مستقبل رہا۔متحدہ قومی موومنٹ کے تنظیمی ڈھانچے پر ہمیشہ سے ایک پراسرار ہالہ پڑا رہا۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح نہ تو اس کے صوبائی اور قومی کنونشن ہوتے اور نہ ہی صدر،نائب صدر ،سکریٹری اور سینٹر ل کمیٹی وغیرہ۔ایک رابطہ کمیٹی پاکستان میں ہوتی تھی اور دوسری ’’لندن ‘‘ میں۔اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کا معاملہ الگ تھا۔ان کی برا ہ راست کمان بھی قائد تحریک الطاف حسین کے ہاتھ میںتھی۔کوئی بھی تنظیم اور تحریک چاہے کتنی ہی بڑی اور مضبوط کیوں نہ ہو ،اگر اُس میں ’’اختلاف ِ رائے‘‘ کی کھڑکی کا دروازہ بندہوجائے تو و ہ ایک فاشسٹ فورس بن جاتی ہے۔اس کے بانی پر پر انگلی اٹھانے والا قابل گردن زدنی ہوجائے تو پھر انسانی فطرت کے تحت اس کے اندر آہستہ آہستہ ایک لاوا پکنا شروع ہوجاتا ہے۔متحدہ قومی موومنٹ اور اُس کی قیادت پاکستان جیسے کھلے معاشرے میں جس طرح اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھی۔ ( جاری ہے) ،وہ بہر حال غیر فطری ،غیر حقیقی ۔مئی 2013ء کے الیکشن سے پہلے ’’ چند افراد‘‘ نے انفرادی طور پر کوشش تو کی ۔۔۔مگر بانی ایم کیو ایم کی شخصیت کو جس نے بھی چیلنج کیا ،وہ پاش پاش ہوگیا۔اس حوالے سے ایک بڑانام ’’عظیم احمد طارق ‘‘ کا بھی آتا ہے۔جن کا قتل بذات خود آج تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ارکان اور قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بھی بڑا دلچسپ امر ہے کہ ایسی تعداد انگلیوں پر ہی ہوگی جو دہائی سے اوپر surviveکر سکے۔متحدہ قومی موومنٹ کی تنظیم و تحریک کا ڈھانچہ جس طرح کا ہے اس میں ’’اندر ‘‘ کی خبر مشکل ہی سے باہر آتی تھی۔تاہم لندن میں ڈاکٹر عمران فاروق کا ’’پر اسرار قتل‘‘ ساری متحدہ قومی موومنٹ کے لئے ایک سوالیہ نشان بن گیا۔جیلوں میںبرسوں سے قید پارٹی کارکنوں کے بیان حلفی اور بیرون ملک پارٹی کے جلا وطن رہنماؤں کی بے چینیوں کی افواہوں سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ ’’سب کچھ اچھا نہیں ہے‘‘ ۔۔۔ مئی 2013ء کے الیکشن کے آتے آتے صاف لگ رہا تھا کہ پینڈورا ز بکس کھلنے والا ہے۔ اور پھر وہ کھلا ۔ ۔۔اور ایسا کھلا کہ جس نے تنظیم ،تحریک اور اُس کے بانی کا ہی دھڑن تختہ کردیا۔(جاری ہے)