ہمارے ہاں جو گھریلو مسائل سب سے زیادہ زیر بحث رہتے ہیں ان میں ایک تو یہ ہے کہ شادی کس عمر میں ہونی چاہئے اور دوسرا یہ کہ بچے کتنے اچھے ؟۔ دوسروں کی طرح اس حوالے سے مجھے بھی نوجوانی ہی سے بہت کچھ سننے اور پڑھنے کو ملا۔ ان میں بہت سے مغالطے تھے تو بہت سی کار آمد باتیں بھی تھیں لیکن عملاً مجھے بعض ایسے تجربات سے گزرنا پڑا جن میں سے بعض کا مجھ پر اور میری فیملی پر بہت خوشگوار اثر پڑا جبکہ بعض حوالوں سے بہت تکلیف دہ صورتحال کا بھی سامنا ہوا۔ میری خواہش ہے کہ ان تجربات کو اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کروں اور شیئر کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ مذکورہ دونوں سوالات کے حوالے سے کتابی کے ساتھ ساتھ عملی صورتحال بھی سامنے آسکے۔ ممکن ہے کہ میرے ان ذاتی تجربات کی قارئین کے لئے کوئی اہمیت نہ ہو لیکن میرے لئے یہ اس اعتبار سے بہت اہم ثابت ہوئے کہ میں نے ان دونوں حوالوں سے جو کتابی یا نصابی باتیں سن رکھی تھیں ان میں ان کا ذکر نہیں تھا۔ سو جب ان کا سامنا ہوا تو یہ میرے لئے کوئی ایسی چیز نہ تھی جس کی مجھے توقع رہی ہو۔ اور جس کے لئے میں نے ذہنی طور پر خود کو تیار رکھا ہو۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے والد کی شادی 36 برس کی عمر میں ہوئی تھی اور میری پیدائش کے وقت ان کی عمر 37 برس تھی۔ چنانچہ ان کی بہت ابتدائی صورت جو میری یاداشت میں محفوظ ہے اس میں بھی ان کی نصف کے قریب ڈاڑھی سفید اور نصف سے تھوڑی زیادہ سیاہ تھی۔ جب کچھ سال بعد میں شعور کی عمر کو پہنچا تو میرے سامنے میرے والد ایک بابا جی کے طور پر موجود تھے۔ گویا میری یاداشت میں میرے والد مرحوم کی جوانی کا کوئی عکس محفوظ نہیں۔ بہن ہماری کوئی نہ تھی اور 9 بھائیوں میں سب سے بڑا میں ہی تھا سو خود ہی اندازہ کر لیجئے کہ میرے بعد والے بھائیوں کا معاملہ اور بالخصوص ان میں سے بھی سب سے چھوٹے بھائیوں کا معاملہ کیا رہا ہوگا۔ مجھے اپنے باقی بھائیوں کے دلوں کا حال تو نہیں معلوم لیکن میں اپنے والد کی جوانی کی جھلک نہ دیکھ پانے کو بہت بری طرح محسوس کرتا ہوں۔ وہ ایک زبردست انسان تھے، ان کا بیٹا ہونا میرے لئے بہت بڑے معانی رکھتا ہے لیکن میں اس زبردست انسان کی جوانی کی ہلکی سی جھلک بھی صرف اس لئے نہیں دیکھ پایا کہ ان کے والد نے ان کی شادی بہت تاخیر سے کی تھی۔ اس کا خود ان پر کیا اثر پڑا ہوگا اس حوالے کبھی ان سے کچھ سننے کو نہیں ملا لیکن مجھ پر تو ہرگز اچھا اثر نہیں پڑا۔ شاید اپنی شادی کے تلخ تجربے کا ہی اثر رہا ہو کہ میری شادی انہوں نے بیس برس کی عمر میں کی۔ اور میرے دیگر بھائیوں کی شادیاں بھی کچھ کمی بیشی کے ساتھ انہی عمروں میں ہوئیں۔ جس بھائی کی شادی سب سے لیٹ ہوئی اس کی شادی کے موقع پر عمر پچیس برس تھی۔ میرے ذہن میں شروع سے ہی کم بچوں کا خیال تھا۔ اور سبب اس کا تعلیم و تربیت ہی رہا۔ اتنی سی بات میں بیس برس کی عمر میں جانتا ہی تھا کہ کلاس میں بچے جتنے کم ہوں ٹیچر کے لئے پڑھانا اور بہتر نتائج دینا اتنا ہی آسان ہوتا ہے۔ چنانچہ تین بچوں کا ارادہ تھا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے تین بیٹوں سے نوازا۔ میں نے ٹی وی پروگراموں اور اخبارات و جرائد میں دانشوروں سے یہی سن پڑھ رکھا تھا کہ بیس برس کی عمر میں شادی کرنا غلط ہے، اس کے بہت سے نقصانات ہوتے ہیں۔ لیکن عملا دیکھا اس کے برعکس۔ کبھی کوئی ایسی الجھن پیش نہیں آئی جس کے حوالے سے یہ خیال آیا ہو کہ اس کا سامنا جلد شادی کے سبب ہوا۔ زندگی بڑی ہنسی خوشی آگے بڑھتی رہی۔ بچے پڑھ بھی اچھا رہے تھے اور تربیت بھی شاید اچھی ہی پا رہے تھے کہ پچھلے پچیس برس کے دوران ہمارے گھر ہمارے کسی بچے کی صرف ایک بار شکایت آئی ہے۔ اور وہ شکایت بھی منجھلے بیٹے کی تب آئی تھی جب وہ 9 برس کا تھا۔ لیکن ایسا نہیں کہ ہمیں کسی مسئلے کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑا۔ ہمیں ایک ایسے عجیب و غریب بحران سے دوچار ہونا پڑا جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ہمیں اپنے حصے کے سنگین خانگی بحران سے تب دوچار ہونا پڑا جب سب سے چھوٹا بیٹا بھی بلوغت کی دہلیز پار کرکے نوجوانی کو آپہنچا۔ وہ جوں جوں جوان ہوتا گیا ہمارا بحران شدید تر ہوتا گیا۔ اور بحران تھا یہ کہ اس کی جوانی کے آغاز کے ساتھ ہی ہمارا گھر بہت تیزی سے گھر کی جگہ ایک ایسے ہاسٹل میں تبدیل ہوتا چلا گیا جہاں ہم پانچ عاقل بالغ لوگ رہ رہے تھے۔ ایک میں تھا جو عمر اور مرتبے میں سب سے بڑا تھا۔ دوسرے نمبر پر میری اہلیہ اور باقی تین نمبروں پر عمر کے لحاظ سے تینوں عاقل بالغ بیٹے۔ یہ صورتحال اس لئے پیدا ہوئی کہ اس گھر میں وہ بچہ نہیں تھا جس کا رونا ہمیں بیقرار کرڈالتا، جو ہم سے ضد کرتا کہ مجھے باہر گھما لاؤ، جو ہاتھ بڑھاتا اور میز پر پڑا شیشے کا گلاس اٹھانے کے چکر میں چکنا چور کر دیتا، جس کے لئے رنگ برنگے کپڑے خرید کر لائے جاتے، جو بیٹری کمزور ہونے پر کھلونا زمین پر پٹخ دیتا اور ہم فورا نئی بیٹری کے انتظام میں لگ جاتے۔ جو کبھی میری ڈاڑھی کے بال پکڑ کر کھینچتا تو کبھی عینک پر جھپٹا مارتا، جس کی خوشی ہماری شادمانی اور جس کی اداسی ہمارا امتحان ہوتی، جو کبھی ہماری گود گیلی کرکے ہمیں باتھ روم کی طرف دوڑا دیتا تو کبھی بازو پر سر رکھ سوتا اور ہمیں منجمد کر ڈالتا۔ جس کی قلقاریوں سے ہم ہی نہیں ہمارے در و دیوار بھی توانائیاں سمیٹتے اور جس کا رونا ہر دیوار کو دیوار گریہ بنا ڈالتا۔ اس ایک بچے کے نہ ہونے سے ہمارے گھر کا گھر ہونا ختم ہوکر رہ گیا تھا اور ہم سب ہی بہت عجیب صورتحال سے دوچار تھے۔ اس ہاسٹل میں، میں ، میری اہلیہ اور میرے تینوں بیٹے پچھلے آٹھ سال سے رہ رہے تھے۔ گزشتہ برس جولائی میں بڑے بیٹے صلاح الدین کی پچیس برس کی عمر میں شادی ہوئی۔ اس شادی کے بعد جس شدت سے ننھے مہمان کا ہم پانچ لوگوں نے انتظار کیا ہے شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ یہ ایک بہت طویل خشک سالی کے بعد آنے والی ہریالی کے انتظار جیسا تھا۔ اللہ نے فضل و احسان فرمایا اور الحمدللہ آٹھ اگست کو میرے پوتے عمر عالم کی پیدائش ہوئی ہے۔ ہمارے گھر میں سب سے زیادہ یہ بات کہی جا رہی ہے کہ کئی سال بعد اب یہ گھر پھر سے گھر بن جائے گا۔ اب یہ اس ہاسٹل کی طرح نہیں رہے گا جہاں چھ عاقل بالغ لوگ رہ رہے تھے۔ اب یہاں گلاس ٹوٹیں گے، گلدان گریں گے اور اوراق پھٹیں گے۔ میں نے اس کالم میں کوئی دانشوری بھگارتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ ہمیں شادی اور بچوں کے حوالے سے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں۔ میں نے بس وہ بیان کیا ہے جس کا مجھے سامنا کرنا پڑا۔ میں چاہتا ہوں کہ اب اس کا تجزیہ میں نہیں آپ خود کیجئے لیکن تجزیہ شروع کرنے سے قبل یہ آخری بات بھی جان لیجئے کہ میرے پوتے کی تاریخ پیدائش پر میری عمر 49 برس اور ڈھائی ماہ ہے۔ مجھے لگتا ہے اس عمر کا مجھے سب سے بڑا ایڈوانٹج یہ ہے کہ میری بہو کو میرے بیٹے کے کان میں یہ سرگوشی پھونکنے کا موقع دستیاب نہیں کہ ’’جانو ! تمہارے ابا کھانستے بہت ہیں، میں ساری رات سو نہیں پاتی، انہیں سرونٹ کوارٹر میں نہ شفٹ کردیں ؟‘‘