مقبوضہ جمّوں و کشمیر کے بارے میں بھارتیا جنتا پارٹی کا جو بھی منشور رہا ہو لیکن انکے تازہ ترین اقدام سے بھارت کے زیر تسلط علاقے میں رہنے والوں کی جبر اور ظلم کا شکار زندگیوں میں اگر کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے تو وہ مزید ظلم اور استبداد ہو گا۔ کیونکہ قانون بنانے یاہٹانے سے یہ معاملہ حل ہونا ہوتا تو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے متفقہ اور اہم دستاویز کوئی نہیںہے۔ جس کودنیا کے ساتھ ساتھ دونوں ملک آج تک مانتے ہیں اگر کوئی تبدیلی ہوئی تو وہ 1972 ء کا شملہ معاہدہ ہے جو بنیادی طور پر اس معاملے میں تیسرے فریق کی ثالثی قبول کرنے میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور معاملے کو باہمی طور پر حل کرنے پر زور دیتا ہے لیکن آج تک اقوام متحدہ کی قراردادوں سے لیکر لاہور ڈیکلیریشن تک، بھارتی کانگریس ہو یا بی جے پی کسی نے یہ نہیں کہا کہ کشمیر کا سٹیس تبدیل ہو گیا ہے یا یہ دونوں ممالک کے درمیان حل طلب مسئلہ نہیں ہے۔ جہاں تک مودی سرکار کے آئینی اقدام کا تعلق ہے تو پاکستان نے کبھی آرٹیکل 370کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا اور بھارت نے پاکستان کے اس مئوقف پر کبھی اعتراض بھی نہیں کیا۔ یہ آرٹیکل بنیادی طور پر کشمیر کے اندر ایک مخصوص گروہ کو بھارت سرکار کا حامی بنانے کی ایک چال تھی جنہیںاقتدار کا نشہ لگانے میں کامیاب ہو گئے۔ شیخ عبداللہ کے خاندان سے لیکر محبوبہ مفتی تک بہت سے لوگ و طن فروشی کے دھندے میں لگے رہے صرف اپنے اقتدار کے لئے۔ آج جب مودی سرکار نے انہیں انکی اوقات یاد دلائی تو رو رہے ہیں کہ ہم نے دو قومی نظریہ نہ مان کر غلطی کی۔یہ کٹھ پتلیاں جو مرضی دہائی دیتی رہیں لیکن آر ایس ایس کا جن حالیہ بھارتی انتخابات میں پوری طرح سے بوتل سے باہر آ چکا ہے اور مودی حکومت کے خاتمے کے بغیر یہ جن قابو نہیں ہو گا۔ اس کے نتائج صرف بھارتی مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو ہی نہیں بلکہ بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو بھگتنے ہونگے۔بھارت کے ہٹلر نے گھاٹے کا سودا کیا ہے۔جیسے ہی کرفیو اٹھے گا اسکو لگ پتہ جائے گا کیونکہ جو کشمیری قیادت آرٹیکل 370 کی آڑ میں جمہوری اور سیکولر انڈیا کا راگ الاپتے تھے اب بے بس ہو گئے ہیں اور منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ جس قسم کانفرت کا ماحول پچھلے ایک سال میں وزیر اعظم مودی نے پیدا کر دیا ہے یہ وہی ہے جو اس نے گجرات میں بنایا تھا جس کے بعد اسے گجرات کے قصائی کا لقب ملا۔ مودی کے لئے گجرات میں ہندوتوا کا تجربہ کامیاب رہا اس نے یہی تجربہ قومی سطح پر کیا۔ انتخابات کی حد تک یہاں بھی مودی کو کامیابی ملی اور اسی نشے میں اس نے مقبوضہ جمّوں و کشمیر کی بھارت کی اپنے آئین اور قانون کے تحت دی گئی پوزیشن کو بدل کر گویا بم کو لات مار دی۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ وہاں کے رہنے والوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا پہلے کونسی وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہیں تھیں اور لوگ خوش و خرم تھے۔ پہلے بھی وہاں آگ اور خون کا بھارتی فورسز نے بازار گرم کر رکھا تھا اب اس میں مزید شدت آئے گی لیکن جن حالات میں یہ اقدام کیا گیا ہے اس نے بین الاقوامی سطح پر بھارت کے گھنائونے چہرے کو بے نقاب کرنے میں بہت مدد کی ہے۔ایسے موقعہ پر جب چند دن پہلے امریکی صدر ٹرمپ کشمیر کے مسئلے کے حل کی بات کر رہے ہیں اور وہاں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ پہلی بار رپورٹ کر رہی ہے، بھارت کی طرف سے اس مسئلہ کو ایک ایسی نہج پر لے جانا جہاں نہ چاہتے ہوئے بھی دنیا خاموش نہیں رہ سکتی کیونکہ ہر کسی کو ادراک ہے مسئلہ کشمیر کے دونوں فریق نیوکلیئراستعداد کے حامل ہیں۔ ماضی میں اس مسئلے پر ان دونوں کے درمیان جنگیں بھی ہوچکی ہیں ۔ بھارت کے اس اقدام سے پاکستان اگر کوئی مہم جوئی نہ بھی کرے تو مقبوضہ کشمیر کے اندر ایک بہت بھرپور چلتی ہوئی تحریک آزادی کو جلا مل چکی ہے۔ بھارت اگر اس قدم کو واپس نہیں لیتا تو وہ کٹھ پتلی عناصر جو آج تک دہلی کی تان پر محو رقص تھے وہ اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لئے اس تحریک کی حمایت میں جا سکتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ مودی حکومت نے جانے انجانے کشمیریوں اورپاکستان کو ایک ایسا موقعہ دیدیا ہے کہ ہم اس مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کرنے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی یہ بات درست ہے کہ جب مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھے گا تو وہاں پر شدید رد عمل آئے گا۔ انکا یہ اندازہ بھی درست ہے کہ بھارت کشمیر کے مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔اس کچھ بھی کے لئے تو پاکستان کی مسلح افواج اور ہر پاکستانی ہمہ وقت تیار ہے۔اسکا اظہار فوج کے ترجمان کر چکے ہیں کہ اگر بھارت نے کسی مہم جوئی کی کوشش کی تو اسکا جواب 27 فروری سے بھی تگڑا ہو گا۔ اس وقت سب سے اہم بات بین الاقوامی برادری کو صورتحال کی نزاکت کا احساس دلانا ہے ، خاص طور پر عمران خان جس بھارتی مائنڈ سیٹ کی بات کر رہے ہیں اور جس انداز میں کر رہے ہیں وہ دنیا کو بتانا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ جس دنیا نے ہٹلر کے نازی جرمنی کو بھگتا ہے انکو یہ معاملہ جلد اور صحیح سمجھ آئے گا۔بی جے پی اور آر ایس ایس کی تاریخ کے ہوتے ہوئے یہ معاملہ اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔ اور پھر مودی کے گجرات راج کے دوران ہونے والے مظالم کی بین الاقوامی سطح پر پہلے ہی بہت آگاہی ہے اسی لئے تو انہیں امریکہ نے اس وقت ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ سفارتی محاذ پر بھرپور کاوش کی ضرورت ہے جس کے ذریعے یہ بیانیہ دنیا بھر میں پہنچایا جا سکتا ہے۔ بھارت کے اندر سے جس انداز میں مودی حکومت کے اس اقدام کی مخالفت ہو رہی ہے وہ بھی اس مسئلے کو صحیح تناظر میں پیش کرنے میں بہت مدد گار ہوگا۔