سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے پاک بھارت کشیدگی میں کمی کے لئے اپنے ملک کی کوششوں کا بتایا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران عادل الجبیر نے سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں نئے عوامل کی وضاحت کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں قیام امن کو ترجیح قرار دیا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان برادرانہ تعلقات کئی بین الاقوامی امور پر متفقہ لائحہ عمل اور باہمی تعاون پر مبنی رہے ہیں۔پاکستان سعودی عرب سے تیل کی ضروریات پوری کرتا ہے‘ لاکھوں پاکستانی محنت کش سعودی عرب میں روزگار سے وابستہ ہیں اور سعودی عرب کی متعدد دفاعی و سٹریٹجک ضروریات پاکستان پوری کر رہا ہے،سعودی عرب خانہ کعبہ و مسجد نبوی کے باعث عالم اسلام کی عقیدتوں کا مرکز ہے۔ یوں یہ تعلقات ہمہ جہتی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازع کشمیر ہے۔ قانون آزادی ہند کے تحت ریاستوں اور راجواڑوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیں۔کشمیر ایک آزاد و خودمختار ریاست تھی جس کے جغرافیائی راستے‘ مواصلاتی رابطے اور سماجی رشتے اس علاقے سے جڑے ہوئے تھے جو پاکستان کا حصہ تھے۔ پھر یہ کہ کشمیر کی اکثریتی آبادی پاکستان سے الحاق چاہتی تھی۔ مہاراجہ کشمیر اس صورت حال سے واقف تھے اسی لئے انہوں نے فوری طور پر کسی ملک سے الحاق کی بجائے پاکستان کے ساتھ ایک عبوری معاہدہ کیا لیکن کانگرسی قیادت نے انگریز حکام سے سازباز کر کے کشمیر میں افواج اتار دیں۔ فوج داخل ہونے کے بعد مہاراجہ سے الحاق کے معاہدے پر دستخط کرا لئے گئے۔ یہ غیر قانونی عمل مقامی آبادی میں اشتعال کا باعث بنا اور کشمیری حریت پسندوں نے پاکستان کی مدد سے بھارت کے خلاف مزاحمت کا آغاز کر دیا۔ بھارتی افواج کے تسلط سے کشمیر کا بڑا حصہ آزاد کرا لیا گیا ۔قریب تھا کہ پورا کشمیر آزاد ہو جاتا لیکن بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رجوع کر لیا۔ سلامتی کونسل نے استصواب رائے کی قرار داد منظور کر کے جنگ بندی کی منظوری دی۔1948ء سے لے کر آج تک اہل کشمیر عالمی ادارے سے تقاضا کر رہے ہیں کہ وہ اپنی قرار دادوں پر عملدرآمد کرائے۔ پاکستان اس تنازع کا بنیادی فریق ہے۔ تنازع کشمیر کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان چار جنگیں ہو چکی ہیں جن میں ہزاروں فوجی دونوں جانب ہلاک و شہید ہوئے۔ تنازع کشمیر حل نہ ہونے کی وجہ سے کئی ذیلی جھگڑے کھڑے ہوئے۔ دونوں ملک عالمی سطح پر ہمیشہ ایک دوسرے کے حریف اتحادوں کا حصہ رہے‘ باہمی لڑائی کی وجہ سے عالمی طاقتوں کو جنوبی ایشیا میں مداخلت کا موقع ملا۔ دونوں ممالک میں مجموعی طور پر ستر کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ خصوصاً بھارت میں یہ صورت حال نہایت ابتر ہے۔ جو رقوم عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے خرچ ہونا تھیں وہ مغربی ممالک میں لابنگ اور اسلحہ کی خریداری پر لٹائی جاتی رہی ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی اس خواہش کو قومی پالیسی کا درجہ حاصل ہے جس میں انہوں نے پاک بھارت تعلقات کو امریکہ وکینیڈا تعلقات کی طرز پر خوشگوار دیکھنے کی آرزو کی تھی۔ مسئلہ اس وقت سنگین صورت اختیار کر گیا جب بھارت میں بی جے پی جیسی تشدد پسند اور انتہا پسند جماعت سیاسی لحاظ سے طاقت پکڑنے لگی۔ بی جے پی نے پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت کو اپنی پالیسی کے طور پر پیش کیا۔ گجرات اور احمد آباد کے مسلم کش فسادات‘ سمجھوتہ ایکسپریس کو نذر آتش کر کے پاکستانی مسافروں کو جلانا‘ پارلیمنٹ پر حملے کا ناٹک‘ پھر ممبئی حملے کی سازش اور بہت سے واقعات نے ایسی فضا بنا دی کہ بھارت میں مسلمانوں کا جینا مشکل ہو گیا‘صرف مسلمانوں پر کیا موقوف اس نفرت اور تعصب نے مسیحیوں‘ بدھوں‘ سکھوں اور دوسری اقلیتوں پر مظالم کا راستہ بھی کھول دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی نفرت کے شکار طبقات منظم ہو کر حکومتی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ پہلے شہریت کے امتیازی قوانین کے خلاف مظاہرے ہوئے‘پھر کشمیر کی آئینی حیثیت بدل دی، اب تین ماہ سے کسان دہلی کا محاصرہ کئے ہوئے ہیں۔ نفرت کی سیاست نے بھارت کے ہمسائیوں کو اس سے بدگمان کر دیا ہے اور یہ سیاست اس کے داخلی مسائل کو بڑھانے کی وجہ بن رہی ہے۔ حالات میں بہتری کے لئے ویزر اعظم مودی کو پر امن بقائے باہمی کے اصول پر عمل کرنا ہو گا۔ عمران خان نے وزیر اعظم منتخب ہوتے وقت بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی خاطر مذاکرات کی پیشکش کی۔ یہ پیشکش بعد میں کئی بار دہرائی گئی۔اپنے یکطرفہ خلوص کا ثبوت دیتے ہوئے کرتار پور راہداری کھولنے کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے مشترکہ دوست مشکلات کا شکار ہونے لگے امریکہ نے پاکستان کے متعلق پالیسی تبدیل ضرور کی ہے لیکن وہ پاکستان کو بوجوہ ناراض نہیں کر سکتا‘ سعودی عرب کے ساتھ بھارت کے اقتصادی تعلقات مضبوط ہیں لیکن سعودی عرب عالمی فورمز پر پاکستان کے خلاف نہیں جا سکتا۔ ترکی‘چین‘ ملائشیا جیسے دوستوں نے بھارت سے دو طرفہ مسائل کا حل پرامن طریقے سے ڈھونڈنے کی اپیل کی جو کارگر نہ رہی۔ چند روز قبل امریکی حکام نے دونوں ملکوں سے مذاکرات شروع کرنے کا کہا تھا۔کہا جا رہا ہے کشمیر اور اقلیتوں پر جبر کے حوالے سے عالمی دباو کو کم کرنے کے لئے بھارت بات چیت پر آمادگی کا تا ثر دے رہا ہے۔ ٹریک ٹو پالیسی کے تحت دونوں جانب کے دانشور ایسی فضا بنا رہے ہیں جو مذاکرات کا راستہ ہموار کر سکے تاہم پاکستان اپنے تمام دوستوں کی خیر خواہی کا اعتراف کرتے ہوئے بجا طور پر یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ اس بار بھارت اعتماد سازی کے لئے پہل کرے۔