آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے دو سال مکمل ہونے پر وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو ایک بار پھر باہمی ت تنازعات سے حل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ سربراہ پاک فضائیہ جناب مجاہد انور خان نے خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارت سے کہا کہ کسی بھی مہم جوئی پر فوری جواب دیا جائے گا۔ وزیراعظم اور ایئر چیف کے یہ پیغامات دو سال قبل بھارت کی طرف سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر جوابی کارروائی میں دو بھارتی طیارے گرانے اور بھارتی افسر ابھی نندن کو گرفتار کرنے کے موقع پر جاری کئے گئے ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ پاکستان اور بھارت 73 برس سے موجود ایک تنازع کو باہمی مذاکرات سے طے نہیں کر پائے۔ تاریخی طور پر دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تنازع کشمیر بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ پانی کی فراہیم‘ تجارتی تعلقات اور دوسرے مسائل اس ایک مسئلے کی کوکھ سے پھوٹتے ہیں۔ بھارت نے قانون آزادی ہند کو تسلیم کرکے اس امر کا عہد کیا کہ وہ برصغیر کو دو آزاد اور خودمختار ریاستوں میں تقسیم کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ انگریز حکام نے سرحدوں کے تعین میں بدنیتی اور بددیانتی کا مظاہرہ کر کے بھارت کو مقع دیا کہ وہ کشمیر پر قبضہ کر سکے۔ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تمام بنیادیں بین الاقوامی قانون کے مسابق تھیں لیکن بھارت نے جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے کشمیر میں فوجیں داخل کیں اور پھر الحاق کی دستاویز کا مکر کیا۔ الحاق کے غیر قانونی معاہدے اور فوجیں داخل کرنے پر پاکستان نے مزاحمت کی اور بھارت کے تسلط سے کشمیر کا بڑا حصہ آزاد کرا لیا۔ تنازع کشمیر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیچیدہ ہوتا چلا گیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان چار جنگوں سے بھی یہ معاملہ حل نہ ہو سکا۔ بین الاقوامی تعلقات میں وہ نظریات دم توڑ چکے ہیں جو دوسری ریاستوں کے علاقے پر قبضہ کی ترغیب اور جواز فراہم کرتے تھے۔ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد ایک دوسرے سے کراتے ممالک نے تصادم کے نقصانات کا تخمینہ لگایا اور اپنا مستقبل پرامن بقائے باہمی کے اصول پر استوار کرنے کا لائحہ عمل ترتیب دیا۔ مشرقی اور مغربی جرمنی نے دیوار برلن توڑ دی۔ شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان بات چیت شروع ہو گئی۔ امریکہ اور روس نے ایک دوسرے کو بین الاقوامی معاملات میں جگہ دی۔ پاکستان اس تبدیلی سے واقف اور اس کے تقاضوں سے آگاہ ہے۔ حال ہی میںبھارت اور پاکستان نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ جنگ بندی کا اعلان دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) کے درمیان بات چیت کے بعد کیا گیا ۔اس کے تحت 24-25 فروری کی درمیانی رات سے دونوں ممالک لائن آف کنٹرول پر فائرنگ بند کر دی گئی اور عہد کیا گیا کہ جنگ بندی سے متعلق گذشتہ معاہدوں پر عمل درآمد کیا جائے گا۔تناو اور کشیدگی کی موجودہ فضا میں یہ پیشرفت قابل قدر ہے لیکن اسے کافی خیال نہیں کیا جاسکتا۔ بھارتی وزارت دفاع کی جانب سے 25 فروری کو جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ 'بھارت اور پاکستان نے لائن آف کنٹرول اور دیگر تمام سیکٹروں پر موجودہ صورت حال کا کھلے اور پرسکون ماحول میں جائزہ لیا ہے۔بھارتی بیان میں مزید کہا گیا کہباہمی مفادات کے پیش نظر اور سرحد پر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز ایک دوسرے سیمتعلقہ سنگین معاملات پر بات چیت کریں گے جن سے خطے میں امن و امان کی خلاف ورزی یا تشدد بڑھنے کا خطرہ ہو۔'سرحدی امن کے حوالے سے یہ دوطرفہ مفاہمت اگر سیاسی حکمت عملی کا حصہ بن جائے تو صورتحال کو یر غمال بنائے بیٹھے تصادم سے نجات ممکن ہو سکتی ہے تاہم یہ ہدف مودی حکومت سے ہر قسم کی اشتعال انگیزی بند کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ بھارتی بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریقوں نے تمام معاہدوں کے ساتھ کنٹرول لائن اور دیگر تمام سیکٹرز میں جنگ بندی کی سختی سے پابندی کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔امریکہ اور اقوام متحدہ نے بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ بندی پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکر نے دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کا بنیادی معاملات کو حل کرنے اور امن برقرار رکھنے کا عزم دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثال ہے۔ امریکہ نے اسے جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام کے لیے ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات کے دوران پاکستانی عوام کی اکثریت نے پاکستان تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیا۔ بھارت میں بعض وجوہ کے باعث یہ سمجھا جارہا تھا کہ عمران خان وزیراعظم بنے تو وہ بھارت کے ساتھ تعلقات خراب کریں گے۔ دوسری طرف پاکستان میں تاثر بلاوجہ نہیں تھا کہ مودی جب تک اقتدار میں ہیں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔ وزیراعظم کی جانب سے امن مذاکرات کی پیشکش اور ایئرچیف کی جانب سے بھارتی چیلنج سے نمٹنے کا پیغام اس امر کی دلیل ہے کہ پاکستان اس امن عمل کی حمایت کرتا ہے جو پرامن بقائے باہمی کی ضمانت دی۔ بھارت ایک بڑی آبادی کی ریاست ہے۔ اتنی بڑی آبادی کو جنگ اور ٹکرائو کے تندور میں جھونکنے سے معاشی‘ سماجی اور سیاسی آزادی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔