چیف جسٹس کے عہدے کے وقار کا بھی بھارت کے نظا م میں کس قدر خیال رکھا جاتا ہے کہ جب 2000میں اسوقت کے وزیر قانون رام جیٹھ ملانی نے بنگلور میں ایک تقریب کے دورن چیف جسٹس آدرش سین آنند کے رویہ کی بغیر ان کا نام لئے بالواسطہ شکایت کی تو وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بذریعہ فیکس فوراً ان سے استعفیٰ مانگا۔ جب تک و ہ واپس دہلی آجاتے، واجپائی نے ان کو وزارت سے الگ کرکے نیا وزیر قانون مقرر کر دیا تھا۔ گو کہ واپسی پر جیٹھ ملانی ، جو خود بھی معروف قانون دان تھے، نے چیف جسٹس سے ملاقات کرکے معذرت ظاہر کی، مگر واجپائی کا کہنا تھا کہ ملک چیف جسٹس کے عہدے کے وقار پر کوئی حرف لانے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ بھارت میں اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری حکومت اور جوڈیشری کے درمیان ایک ایشوبنا ہوا ہے۔ فی الوقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سینئر ججوں پر مشتمل ایک کولیجیم ، نام سلیکٹ کرکے ، حکومت کو بھیجتی ہے، جو خفیہ اداروں سے کوائف وغیرہ معلوم کرکے صدر کے پاس سفارش بھیجتی ہے، جہاں سے تقرری کا آرڈر جاری ہوتا ہے ۔ ایک طرح سے جج ہی ججوں کو سیلکٹ کرتے ہیں۔ جو کسی بھی جمہوری ملک کو جہاں پارلیمنٹ کو فوقیت حاصل ہوتی ہے، زیب نہیں دیتا ہے۔ اس عمل کو صاف و شفاف بنانے کیلئے حکومت نے پارلیمنٹ سے نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن بنانے کا ایک قانون پاس کیا تھا ۔ جس کے ممبران میں وزیرا عظم، وزیر قانون،حکومت کے نامزد کردہ دو معروف قانون دان، چیف جسٹس اور دیگر جج شامل تھے۔ مگر چند سماعتوں کے بعد ہی سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے اسکو مسترد کردیا۔ حکومت نے بھی اس قانون کو پھر واپس لاگو کروانے کی ضد نہیں کی۔ یہ معاملہ بھارت میں ہنوز موضوع بحث ہے۔ پاکستان میں عدالتوں کو آمر حکمرانوں نے وقتاً فوقتاً استعمال کیا ہے ۔ مگر جمہوری حکمرانوں نے بھی کچھ کم کسر نہیں چھوڑی ہے۔ جس طرح وزیر اعظم نواز شریف کے حامیوں نے 1997ء میں چیف جسٹس کے چیمبر اور سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا، کسی بے ضابط ملک میں بھی اسطرح کی حرکت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پھر 1998ء میں ایک آرمی چیف کو بیک جنبش قلم معطل کرنا اور پھر ایک سال بعد دوسرے آرمی چیف کو اسوقت معطل کرنا ، جب وہ غیرم ملکی دورہ سے واپس آکر جہاز میں ہی تھا۔ اور اس پر طرہ کہ جہاز کو لینڈ کرنے کی اجازت نہ دینا بس یہی ظاہر کرتا ہے کہ طاقت کے نشے میں چور حاکم دیگر اداروں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر ان کی تذلیل کرارہا ہے۔ اسطرح کے حاکم کو پھر حالات کے پلٹتے ہی بدلہ کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ بھارت میں 1998ء میں بحریہ کے سربراہ وشنو بھاگوت کو حکومت کے ساتھ اختلافات کی بناپر عہدے سے ہٹایا گیا تھا ۔ ایڈمرل کا ٹائٹل بھی ان سے چھینا گیا۔ اس وقت کے وزیردفاع جارج فرنانڈس نے اپنے چیمبر میں بلا کر حکومت کے فیصلہ سے ان کو آگاہ کیا۔ واجپائی حکومت کی اتحادی پارٹی تامل ناڈو کی آل انڈیا انا ڈی ایم کے پارٹی نے اسکو ایک ایشو بناکر حمایت واپس لیکر حکومت ہی گرا دی۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت میں فوجی سربراہ بس ایک مہرہ ہوتا ہے۔ کابینہ کی سلامتی سے متعلق امور کمیٹی میں اس کا خاصا عمل دخل ہوتا ہے۔ سکیورٹی اداروں کے ان پٹ کے بغیر شاید ہی وزیر اعظم کوئی فیصلہ کرنے کامتحمل ہوسکتا ہو۔ 2007 ء میں جب بھارت اور پاکستان کے درمیان سیاچن گلیشئر سے فوجوں کی واپسی کے ایک معاہدے پر دستخط ہونے ہی والے تھے، کہ آرمی چیف جنرل جوگندر جسونت سنگھ نے شمال مشرقی صوبوں کا دورہ کرتے ہوئے میڈیا میں اسکے خلاف ایسے وقت بیان دیا کہ جب پاکستان کا سیکرٹری دفاع دہلی میں ایگریمنٹ پر دستخط کرنے کیلئے آیا ہوا تھا۔ سنگھ کے بیان کے بعد ایگریمنٹ پر دستخط کرنے کی تقریب ہی منسوخ کردی گئی۔2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ اور پھر 2008میں ممبئی حملوں کے وقت جب واجپائی اور پھر من موہن سنگھ نے بالترتیب کابینہ کی سلامتی سے متعلق امور میٹنگ میں آرمی اور دیگر سروسز چیف سے پاکستان کے خلاف کاروائی کرنے کیلئے کہا تو ان کو بتایا گیا کہ ملک ایک طویل جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بتایا گیا کہ ملک میںسٹریٹجک تیل کے ذخائر اور ایمونیشن کے 12 سے 15دن کی مکمل جنگ برداشت کر سکتے ہیں۔ مگر واجپائی نہ من موہن سنگھ نے فوج کی اس کمی کو کبھی ایشو بنایا۔ بلکہ فوج، فضائیہ اور بحریہ کے سربراہان کو بتایا گیا کہ وہ یہ بتائیں کہ وہ جنگ کیلئے تیار ہیں مگر اس کا فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے۔ دونوں وزراء اعظم کو ملک کے سخت گیر طبقہ نے خوب ملامت کا نشانہ بنایا ۔ مگر انہوں نے اس تنقید کو فوج تک پہنچنے نہیں دیا۔ مجھے یاد ہے، نومبر 1996ء میں پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کی معزولی کی خبر جب بی بی سی سے نشر ہو رہی تھی، میں کچھ ساتھیوں کے ہمراہ کشمیری راہنما سید علی گیلانی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ان کا پہلا ردعمل یہ تھاکہ کرپشن اور دیگر الزامات کے باوجود ایک منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے تھا۔جمہوریت کے ثمرات انقلابی نہیں بلکہ ارتقائی ہوتے ہیں۔دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان میں جمہوری نظام میں بہتری لانے کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔جنوبی ایشیا ء کی سیاست کا ایک وصف مشترک ہے۔ وہ یہ کہ یہاں پوری سیاست ایک شخص کی انانیت اور ذات کے گرد محصور ہوجاتی ہے۔ یہاں ذاتی وفاداری کو اہمیت دیکر اور فیصلوں میں من مرضی پر اڑکر، پارٹی کی اندرونی جمہوریت کا جنازہ نکال کر رکھ دیاجاتا ہے۔ مگر نریندر مودی نے اسکی اندرونی جمہوریت کا اب جنازہ نکال کر رکھ دیاہے۔ جمہوریت کے استحکام کیلئے مڈل کلاس بھی ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے۔ بھارت کی 125کروڑ کی آبادی میں مڈل کلاس کا تناسب21.36فیصد ہے جبکہ پاکستان کی 25کروڑ کی آبادی میں اس طبقہ کی تعداد صرف 6.8فیصد ہے۔ دونوں ممالک میں جمہوری نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ ویسٹ منسٹر پارلیمانی نظام میں امیدوار ووٹروں کو ذات برادری اور مذہب کے خانوں میں بانٹ کر اپنا الو سیدھا کرتا ہے۔ جس طرح وزیرا عظم کی تقرری کیلئے لازم ہے کہ ایوان میں اسکو 50فیصد سے زائد اراکین کی حمایت درکار ہونی چاہئے ، اسی طرح امیدوار پر بھی لازم ہونا چاہئے کہ وہ اپنے حلقہ کے 50فیصد راے دہندگان کی حمایت حاصل کرے۔ میں اس جانب اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سادگی کا مطلب پھٹے حالی ہر گز نہیں ہے۔سادگی میں ایک خوبصورتی اور کشش ہوتی ہے جسے اس خوبی کو اپنانے والا بخوبی دیکھ سکتا ہے۔ پاک صاف اور باوقاررہنے کے لئے پیسے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گاندھی جی کی نصیحتوں کو یورپ کے سیاست دانوں نے حرف بہ حرف اپنا لیا ہے لیکن مہاتما گاندھی کے پیروکارو ں نیز آخری رسولؐ کو ماننے والوں نے ان تعلیمات کو بہت پہلے ہی بھلا دیا ہے ‘ جس کا انجام آج عوام کو بدحالی اور تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میںآزادی کے بعد فرسودہ اور ناقص انتخا بی نظام کے نتیجہ میں جمہوری لبادہ میں اشرافیہ (Oligarchy)کا جو طبقہ معرض وجود میں آیا، اس نے ملک کے وسائل اور دولت کو دونوں ہاتھوں لوٹا ہے۔