29 اکتوبر 2019ء کوجنوبی کشمیرکے ضلع کولگام کے کاترس گائوںمیں پانچ بہاری مسلمان مزدوروںکوقابض بھارتی فوج نے ہلاک کردیا، اس سے چندیوم قبل شوپیان میں دوٹرک ڈرائیورہلاک کردیئے گئے ۔ جس سے ثابت ہورہاہے کہ بھارت سانپ ہے اپنے ہی بچے نگل رہاہے۔ان مزدوروں کوایسے موقع پرگولیوں سے بھون ڈالاگیا جب ایک نام نہاد یورپی پارلیمانی وفد سری نگرمیں موجودتھا۔کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد اگست میں کشمیرکی ظالم پولیس نے ایک ایڈوائزری جاری کی تھی کے غیر کشمیری مزدور اور سیاح کشمیر چھوڑ کر چلے جائیں۔لیکن اب یہ ایڈوائزری ہٹا لی گئی ہے۔چونکہ کشمیرمیں سالانہ چارلاکھ بھارتی مزدورروزی روٹی کے لئے آتے ہیں وہ بھی واپس چلے گئے تھے لیکن اس ایڈوائزری کے خاتمے کے بعد اب وہ آہستہ آہستہ وہ کشمیر واپس آنے لگے تھے اور سیبوں کے باغات اور دیگر مقامات پر کام پرجت گئے ۔لیکن شام کے وقت قابض بھارتی فوج ان مزدوروںکے گھر میں گھسی اور انہیں باہر نکالا اور گولیاں مار دیں۔ حملے میں پانچ مزدوروں کی موت ہو گئی جبکہ ایک زخمی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں سے تین کی شناخت کر لی ہے۔ ان کے نام محمد مرسلین، احمد، قمر الدین اور محمد رفیق ہیں۔ یہ مزدوربھارتی ریاست بہار کے رہنے والے تھے۔اسے قبل جمعہ25 اکتوبر 2019ء کو پھلوں کی ترسیل پر مامور ٹرکوں پر قابض بھارتی فوجی اہلکاروںنے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 2 ڈرائیور ہلاک اور ایک زخمی ہوگیاجبکہ ایک ٹرک کو آگ بھی لگا دی گئی۔ ہلاک شدہ ایک ٹرک ڈرائیور کی شناخت محمد الیاس کے نام سے ہوئی ہے جس کا تعلق راجھستان سے ہے جب کہ زخمی ڈرائیور کا نام جیون ہے اور وہ ہریانہ کا رہائشی ہے۔ قبل ازیں14،اکتوبرکوقابض فوج کی اندھا دھند فائرنگ سے راجھستان سے تعلق رکھنے والے ٹرک ڈرائیور شریف خان کو قتل کردیا تھا جو راجھستان سے پھلوں سے بھرا ٹرک مقامی تاجروں کو دینے کشمیر پہنچا تھا۔ غریب بہاری مزدوروں کے اس قتل سے وفدکویہ دکھانامطلوب تھاکہ کشمیرمیں مجاہدین کیسے بھیانک کارنامے انجام دے کرخالص غیرکشمیری اوربھارتی شہریوں کوقتل کررہے ہیں۔قابض بھارتی فوج کاٹریک ریکارڈ یہ رہاہے کہ کسی نہ کسی بہانے کشمیریوں کی ایسی شبیہ پیش کی جائے جسے انہیں مظلوم اوربے بس ہونے کے بجائے بے رحم قاتل ثابت کیا جاسکے۔اس کے لئے فوج نے کئی مواقع پرکئی فرضی جھڑپیں رچائی کہ جن میں عام شہریوں کوقتل کیاگیا ۔ 22مارچ 2000 ء کو جب اس وقت کے امریکی صدرکلنٹن بھارت کے دورے پرتھے توعین اس موقع قابض بھارتی فوج نے جنوبی کشمیر کے گائوں چھٹی سنگھ پورہ میںشب خون مارا ،اورسکھ اقلیت کے 36 افراد کو ہلاک کردیاگیا۔اس افسوس ناک واقعے پرقابض فوج نے مجاہدین کوموردالزام ٹھراتے ہوئے کہاکہ پانچ غیرملکی مجاہدین نے یہ کارروائی انجام دی جنکی تلاش جاری ہے ۔اسکے محض پانچ روز بعد ہی قابض بھارتی فوج نے پانچ مجاہدین کو شہید کرنے کا دعوی کیا تھااور کہاکہ یہی وہ تھے کہ جنہوں نے چھٹی سنگھ پورہ میں سکھوں کاقتل عام کیاتھا۔ لیکن اس دعوے کومتاثرسکھوں اورمسلمانوں نے مستردکردیااوراصل قاتلین کوگرفتارکرنے اورسزادینے کامطالبہ کیا۔ بعد میں خودبھارت کی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ قابض بھارتی فوج نے جن پانچ افرادکوشہیدکرکے واقعے میں ملوث قراردیاتھاوہ پانچوں عام کشمیری شہری تھے۔ شہیدکئے جانے والے ان کشمیرکے ان عام شہریوں کی شناخت ظہور دلال، بشیر احمد بٹ، محمد ملک اور جمہ خان کے طورپرہوئی۔ آج تک اسلام آباد ضلع کے شانگس علاقہ کے گائوں چھٹی سنگھ پورہ میں22 مارچ2000ء کے قتل عام کی دردناک یادیں لوگوں کا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔جب ساراہندوستان ہولی منارہاتھاتو کشمیر کے سکھ اقلیت کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی گئی اورآن واحدمیں تین درجن سکھوں کو درندگی کامظاہرہ کرتے ہوئے گولیوں سے بھون ڈالاگیا تھا۔سکھوں کاکہناہے کہ 22مارچ 2000ء کی شام کے پونے آٹھ بجے فوجی وردی میں ملبوس افراد آئے اوریہ کہہ کر سکھوں کو گھروں سے باہر نکال کر ایک جگہ جمع ہونے کیلئے کہا کہ علاقہ میں مجاہدین کی موجودگی کی اطلاع ہے۔گائوں کے سکھوں کاکہناہے کہ فوجی وردی میں ملبوس مسلح افراد ،جو ہندی میں بات کررہے تھے اورانہوںنے سکھوں کو شراب کی پیشکش کی جو انہوں نے ٹھکرائی جس کے بعد میں انہوں نے قطارمیں موجودسکھوں پر گولیاں برسائیں ،جس کے بعدہرطرف خون ہی خون تھااورخون میں لت پت لاشیں بکھری بڑی تھیں ان میں سے ایک ہی کنبے کے پانچ سکھ مارے گئے ۔ علاقے کے لوگوں نے گولیاں چلنے کی تڑتڑاہت سنیں اور شور بپاہوا ،تووہ اس گائوںکی جانب دوڑ پڑے جہاں خون میں لت پت لاشیں بکھری پڑی دیکھیں۔یہ پورے گائوں کیلئے قیامت کا دن تھا اور پورا گائوں ماتم کدے میں تبدیل ہوگیا تھا۔ علاقے کے تمام مسلمانوں نے اس پرسخت احتجاج کیااوروہ سکھوںکی ڈھارس باندھتے رہے ۔سکھ کہتے ہیں کہ وہ شام نہیں بھول سکتی،کہ جب قابض بھارتی فوج نے سکھ مردوں کو گھروں سے باہر نکل کر ایک جگہ جمع ہونے کیلئے کہا تاکہ وہ تلاشی کارروائی عمل میں لاسکیں اورپھران پربے رحمانہ اندھادھندفائرنگ کی گئی۔ دراصل یہ صدرکلنٹن کے دورہ کشمیرکے موقعہ پر ہوئی سکھوں کی یہ ہلاکتیںمنصوبہ بند تھیں،اس واقعہ کے بعد سکھوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی لیکن سکھ اس بات کوخوب جانتے تھے کہ ان کاقتل عام بھارتی فوج نے کیا۔سکھ اقلیت ببانگ دہل رہی ہے کہ چھٹی سنگھ پورہ میںقابض بھارتی فوج نے قتل عام کیا ۔واضح رہے کہ 1990ء میں جب جہادکشمیرکاآغازہواتوبھارت نے اسلامیان کشمیرکے خلاف ایک شرمناک منصوبے پر عمل کرنے کے لئے ہندواقلیت ’’کشمیری پنڈتوں‘‘جن کی تعداد2لاکھ بتائی گئی کوسینکڑوں بسوں اورٹرکوں میں لادکروادی کشمیرسے راتوں رات نکال کرجموں پہنچایاگیا۔مگرسکھ اقلیت نے اپنے گھروں کونہیں چھوڑاتین عشرے ہورہے ہیں کہ سکھوں کومجاہدین کشمیرکی طرف سے کوئی ڈرائوودھمکائوں کوکبھی سامنانہ کرناپڑا۔اس پس منظرمیں بہاری مزدوروں اورانڈین ٹرک ڈرائیوروں کے قتل عام میں وہی ہاتھ ملوث ہیں کہ جوسکھ اقلیت کے قتل عام میں ملوث رہے ہیں۔