بابری مسجد شہید کرانے والی جماعت بی جے پی کی بھارت میں حکومت قائم ہوتے ہی انتہا پسند ہندو تنظیموں نے سراٹھا لئے۔بنگلور میں راشٹریہ ہندو آندوسن نامی غیر معروف تنظیم نے اذان پر پابندی لگوانے کیلئے ڈپٹی کمشنر آفس کے باہر مظاہرہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بھارت بھر میں فجر کے وقت لائوڈ سپیکر کے ذریعے اذان دینے پر پابندی لگائی جائے کیونکہ اس سے ان کی نیند خراب ہوتی ہے اس کے علاوہ مساجد میں عشا سے فجر تک لائوڈ سپیکر کا استعمال بھی ممنوع قرار دیا جائے۔ کچھ عرصہ قبل بھی ہندو مظاہرین نے انتظامیہ پر دبائو بڑھانے کیلئے خود سوزی کی کوشش بھی کی تھی۔ ہندو مظاہرین نے دھمکی دی تھی کہ جب تک اذان فجر پر پابندی نہیں لگائی جاتی وہ اپنی اس تحریک کو جاری رکھیں گے۔ اس سلسلہ میں ہندو انتہا پسند تنظیموں سناتن سنستھا، راشٹریہ ہندواندولن، ہندوجن جاگرتی سمیتی اور بھارت کرانتی سینا کے اہلکاروں نے بنگلور ڈی سی دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیم سناتن سنستھا کی لیڈر وجے لکشمی نے کہاکہ بھارت میں سبھی مذاہب کو آزادی دی گئی ہے، لیکن کسی ایک خاص مذہب کے لوگ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں تو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اس سے تکلیف ہوگی۔ ہندو جن جاگرتی سمیتی کے لیڈر وویک پائی نے کہاکہ سکون کے ساتھ نیند کرنا ہر فرد کا ایک بنیادی حق ہے، اس لئے فجر کی اذان پر پابندی لگائی جائے کیونکہ مسلمان جان بوجھ کر ماحول میں صوتی آلودگی پیدا کررہے ہیں۔لہذا جو لوگ فجر کی اذان کے لئے لائوڈاسپیکر استعمال کرتے ہیں انہیں گرفتارکرتے ہوئے سزا دی جائے۔ لوک سبھا کے انتخابات میں نریندر مودی کی کامیابی مسلم حلقوں بالخصوص کشمیر اور پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں ہے کیونکہ موودی کی مسلم کش پالیسی سب کے سامنے اور ایک کھلی حقیقت ہے۔ موصوف اپنے سابقہ بیانات میں کھل کر مسلمانوں خاص طور پر پاکستان کے خلاف بیانات داغتے رہے ہیں۔بھارت میں وشواہندوپریشد ایسی ایک دو نہیں ، درجنوں کی تعدادمیں بنیادپرست اورعسکریت پسندمتعصب جنونی ہندوجماعتیں پائی جاتی ہیں جن کامنشورہی ہندوستان کی تمام اقلیتوں کے وجود سے پاک کرکے سوفیصد’ ’ہندواستھان‘‘ بنانا ہے۔ نریندر مودی کا نام آتے ہی بھارتی ریاست گجرات کے مسلم کش فسادات آنکھوں کے گھومنے لگتے ہیں اور وہ لوگ جو ان فسادات کی بھینٹ چڑھائے گئے تھے اب تک زخم اپنے سینے پر لیے ہوئے ہوں گے اور یقیناًاس وقت وہ مزید خوفزدہ ہو رہے ہوں گے کہ تخت دہلی کا تاجدار بننے کے بعد مودی ان پر مزید نفرت کے بم گرائے گا۔مودی اس سے پہلے بھی اپنی مسلم دشمن پالیسی کا بارہا اظہار کرتا چلا آیا ہے اب تو اس کے ہاتھ میں وہ قوت ہے کہ جب چاہے مسلمانوں کے خلاف اپنی ظالم پالیسی کا اعلان کر سکتا ہے۔گجرات میں مودی کی حکومت میں چارہزار انسانوں کے قتل اوردس ہزارسے زائدزخمی اور اغواء کے بعد انسانیت سوزسلوک کرنے کے جرم کی پاداش میںدس افرادکوبھی سزانہیں ہوئی۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک کے کئی شہروں میں فسادات ہوئے ،سب سے بڑاخوفناک فساد بمبئی میں ہواجس میں ایک ہزارسے زائد مسلمانوں کو وحشیانہ طورپر قتل کردیا گیا تھا۔ سری کرشاکمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اہم ملزموں کی نشاندہی کی لیکن ایک ہزار سے زائدمسلمانوں کے قتل میں ایک بھی شخص کوسزا نہ دی جا سکی۔دوسری طرف ملائم سنگھ یادونے میرٹھ کے مالیانہ اورہاشم پورہ محلے کے مسلمانوں کو قتل کرنے والے نیم فوجی فورس پی اے سی کے اہلکاروں کونہ صرف بحال کیا بلکہ ان میں کئی افرادکوترقی بھی دی گئی۔اس واقعے کی دہائیوں سے سماعت کی نوبت ہی نہیں آ سکی۔ مسلمانوں بالخصوص کشمیروں کے زخم ایک بار پھر ہرے ہو چکے ہیں اور عوامی اور جہادی حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ مودی کی حکومت کشمیر میں اپنی فوجی کاروائیاں تیز کر دے گی اور کشمیروں پر ظلم کی انتہا کردی جائے گی جس سے ایک بار پھر جہادی تنظیمیں متحرک و یکجا ہو کر کھل کر سامنے آئیں گی۔ بھارتی مسلمان اگر متحد اور منظم ہوجائیں تو وہ اپنے حقوق کا دفاع کرسکتے ہیں۔ وہ مودی جو ہزاروں مسلمانوں کا قاتل ہے،وہ مودی جس نے الیکشن پاکستان دشمنی کی بنیاد پر لڑا تھا۔وہ مودی جس نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔کیا اب نواز شریف بی جے پی کے منشور کے مطابق اور بھارت کے ساتھ یکطرفہ دوستی کی بنیاد پر بھارت میں رام مندر کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے؟ میاں صاحب کو پاکستانی و کشمیری قوم کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے تھا۔کشمیر ی قوم نے پاکستان کے لئے قربانیاں دیں۔حالیہ الیکشن میں کشمیریوں نے ڈھونگ انتخابات کا بائیکاٹ کر کے پاکستان کے ساتھ محبت اور بھارت کے ساتھ نفرت کا ثبوت دیا ۔ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق جھاڑ کھنڈ کے جنگلی علاقے بالوماتھ میں دو مسلمان افراد 8گائیوں کا ایک ریوڑ لے جا رہے تھے کہ ہندوانتہاپسندوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ مسلمان یہ گائیں مارکیٹ میں فروخت کرنے کے لیے لیجا رہے تھے۔انتہاء پسندوں نے مسلمانوں پر تشدد کرنے کے بعد انہیں درخت کے ساتھ پھندہ دے کر قتل کر دیا اور فرار ہو گئے۔ رپورٹ کے مطابق مقتولین میں 35 سالہ محمد مظلوم اور 15سالہ آزاد خان عرف ابراہیم شامل ہیں۔ یہ دونوں مویشیوں کے بیوپاری اور باہم رشتہ دار تھے۔ جب پولیس نے ان کی لاشیں درختوں سے اتاریں تو ان کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے اور ان کے منہ میں کپڑا ٹھونسا ہوا تھا۔ لیتہار کے ایس پی انوپ برتھارے کا کہنا ہے کہ ’’طریقہ واردات سے لگتا ہے کہ یہ واقعہ انتہائی نفرت کا شاخسانہ تھا۔‘‘ مقامی ایم ایل اے پرکاش رام کا کہنا تھا کہ ان دو مسلمانوں کے قتل کے پیچھے ہندوانتہا پسندوں کا ہاتھ ہے۔