افغانستان کے حوالے سے نئی دہلی کی بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ دوحہ امن معاہدے پر رد عمل دیتے ہوئے وزیر خارجہ جے شنکر نے اس کو بالی ووڈ کی ایک مشہور فلم پاکیزہ کے ساتھ تشبیہ دی۔ لکھنئو کے مسلم کلچر اور ایک طوائف کی محبت کی کہانی پر مبنی اس فلم کی پروڈکشن پر ڈائریکٹر کمال امروہی کو 16سال صرف کرنے پڑے۔ گو کہ فلم باکس آفس پر ہٹ ہوگئی، مگر اسکی ریلیز سے چند روز قبل ہی اس کی مرکزی اداکارہ مینا کماری چل بسی۔ نئی دہلی میں بھی چند حلقے اب طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات اور تعلقات استوار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ مگر افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر امر سنہا کے مطابق طالبان کے ساتھ تب تک گفت و شنید کا کوئی مطلب نہیں بنتا ہے ، جب تک وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسر نو جائزہ نہیں لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان کا جھکائو پاکستان کی طرف کچھ زیادہ ہے، جس کی وجہ سے بھارت کو ان کے ساتھ کوئی بھی سلسلہ کھولنے میں تامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ تحفظات اپنی جگہ، مگر جب انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع ہوتا ہے، تو بھارت کو اس میں اپنی پوزیشن بنالینی چاہئے۔ اور اس کو یقنی بنانا چاہئے کہ یہ مذاکرات نیوٹرل جگہ پر ہوں۔ سنہا کا کہنا ہے کہ افغانستان میں عوامی سطح پر بھارت کو پذیرائی حاصل ہے ، جس کی وجہ سے ہی طالبان نے چاہ بہار اور بھارتی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کی آفر دی ہے۔ سابق سیکرٹری خارجہ شیام سرن کا کہنا ہے کہ بھارتی پالیسی طالبا ن کو کلی طور پر کابل اقتدار سے دور رکھنا اور ایک وسیع البنیاد حکومت میں ان کے اثر و نفوذ کو کم کرنے پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔ یعنی طالبان اگر اقتدار میں شرکت بھی کریں تو ان کی کوئی فیصلہ کن پوزیشن نہ ہو۔ ان کا کہنا ہے افغانستان میں طالبان مخالف عناصر کو یکجا کرکے یہ ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرح سے امر سنہا اور شیام سر ن کے خیالات بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی اور اقدامات کا نچوڑ ہیں۔ دوسری طرف دیگر سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ 1996ء کے برعکس پاکستان اپنے مالی حالات کی وجہ سے متوقع طالبان حکومت کی کوئی مددنہیں کر پائے گا۔ اور یہی کچھ حال سعودی عرب اور متحدہ امارات کا بھی ہے۔ اسلئے اپنے مالی بازو پر بھروسہ کرکے بھارت کو طالبان کو شیشہ میں اتار کر ان کو پاکستان کے خیمہ سے باہر نکالنے کے جتن کرنے چاہئے۔ بھارت کی اس روش سے افغانستان میں شاید ہی امن بحال ہوسکے گا ۔ چونکہ بھارت خود ہی افغانستان کے معاملات کو کشمیر کے ساتھ منسلک کرتا آیا ہے، اسلئے بین الاقوامی برادری کو بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ اس خطے میں امن و سلامتی تبھی ممکن ہے جب کشمیر میں بھی سیاسی عمل کا آغاز کرکے اس مسئلہ کا بھی کوئی حتمی حل تلاش کیا جائے۔ کشمیر عوام کے حقوق کی بحالی اور افغانستان میں ایک حقیقی عوامی نمائندہ حکومت ہی خطے کی سلامتی کی ضامن ہے۔