مردم شماری کے اعداد و شمار ہی ان کے جھوٹ کی پول کھول دیتے ہیں۔ 1951 میں جب پہلی بار متحدہ پاکستان میں مردم شماری ہوئی تو غیر مسلم آباد کا تناسب 14.20فیصد تھا۔ مغربی پاکستان میں اقلیتی آبادی کا تناسب 3.44فیصد ، جبکہ مشرقی پاکستان حال بنگلہ دیش میں 23.20فیصد اقلیتیں آباد تھیں۔ پاکستان میں 1971کی مردم شماری کے مطابق غیر مسلم آبادی 3.25فیصد ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح 1981ء میں 3.30فیصداورپھر 1998ء میں اقلیتی آبادی 3.70فیصد پائی گئی۔ پاکستان میں 2017ء میں ہوئی مردم شماری کے نتائج ابھی شائع نہیں کئے گئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اقلیتی آبادی کا تناسب کم و بیش وہی ہے، جو 1947ء میں تھا۔ ایک طرح سے 3.44فیصد سے بڑھ کر 3.70فیصد ہو گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں اقلیتی آبادی میں بتدریج کمی آگئی ہے۔ 1974ء کی مردم شماری کے مطابق غیر مسلم آبادی کی شرح 14.60فیصدتھی، جو 1981ء میں 11.70فیصد، 2001ء میں 10.40فیصد، اور پھر 2011میں 9.6فیصد ریکارڈ کی گئی۔ 1951 ء اور 2011ء کے درمیان غیر مسلم اقلیتی آبادی 23.20سے گھٹ کر 9.6فیصد رہ گئی ہے۔ بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد لسانی اقلیتوں کے ساتھ تشدد کے جو واقعات پیش آئے ، اس کی وجہ سے چٹاگانگ پہاڑی علاقوں کے چکمہ اور ہزونگ قبائلی مسکین بھارت میں پناہ گزین ہوگئے تھے۔ معاشی بدحالی کے شکار اور روزگار کی تلاش میں بھی دونوںہندو اور مسلمان بنگالی بھارت منتقل ہوگئے ہیں۔ مگر یہ دعوی کرنا کہ بھارت اور پاکستان میں خوف و ہراس کی وجہ سے غیر مسلم آبادی کا تناسب تبدیل ہوا ہے، حقیقت سے پرے ہے۔ تقسیم ہند اور 1971 ء میںسقوط مشرقی پاکستان کے وقفہ کے دوران تقریباً دس ملین افراد ہجرت کرکے شمال مشرقی ریاستوں میں بس گئے تھے۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر زچ کرنے کیلئے سرحدیں کھول دی گئیں تھیں اور اس طرح کی ہجرت کی حوصلہ افزائی خود بھارت ہی کر رہا تھا۔ بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلہ اور پھر نظر ثانی کی پیٹیشن کو چند منٹ میں خارج کردینے اور اب اس شہری قانون نے بھارتی مسلمانوں کو تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کے لیڈران جس سیکولرازم کا دم بھر کر اور اپنے آپ کو محب الوطن ثابت کروانے کیلئے، پڑوسی ممالک کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے، اس کو معلوم ہے کہ اس سیکولرازم کا بھرم ٹوٹ چکا ہے۔ اس اضطراب کی کیفیت میں لازم ہے کہ مسلمان ان چہروں کو یاد رکھیں، جنہوں نے پارلیمنٹ اور اسکے باہر اس قانون کی حمایت کی۔ ان نام نہاد سیکولر چہروں اور اپنے ان اراکین پارلیمان لوک جن شکتی پارٹی کے محبوب علی قیصر، کشمیر کے نیشنل کانفرنس کے اراکین، وغیرہ جن کو اس قانون کے خلاف بولنے کی توفیق نہیں ہوئی، کو یاد رکھیں۔ جمعیت علما ء ہند کے سربراہ مولانا محمود مدنی کو بھی یاد رکھیں، جنہوں کے ایک ٹی وی پروگرام میں اس قانون کی حمایت کی تھی۔ مسلم نوجوانوں کے لئے لازم ہے کہ جمعیت علما ء ہندکے چچا ارشد مدنی اور بھتیجے محمود مدنی کے کھیل کو سمجھ کر ان کے جھانسے سے نکل کر نئی لیڈرشپ ترتیب دیں۔ خاص طور پر علی گڈھ ، جامعہ ملیہ اسلامیہ او ر دیگر اداروں میں مسلم طلبہ اور نوجوانوں نے جس طرح اس قانون کے خلاف رد عمل دکھایا، جمعیت علما ء ہند نے پلٹہ کھا کر مظاہروں کی کال دی۔ ملت کو ایک بار پھر فریب دیکر نئی دہلی کے جنتر منتر پر مولانا محمود مدنی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون ملک کے دستور کو پامال کرنے والا ہے۔ ہم اس کو مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ ملک کے خلاف سمجھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ امن و امان قائم رکھیں، ہم بزدل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان ایک زندہ قوم ہے اور زندہ قوموں کو پریشانی ہوتی ہے مگر وہ اس پریشانی سے نکلنے کی راہ بھی نکالتی ہے۔ واضح رہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں یہ بل پیش کئے جانے سے قبل مولانا محمود مدنی نے اس بل کاخیر مقدم کیاتھاور کہاتھا کہ اگر سرکار پاکستان اور دیگر ملکوں کے اقلیتوں کو شہریت دینا چاہتی ہے تو یہ غلط نہیں ہے تاہم مسلمانوں کو یہاں شہریت دیئے جانے کے ہم خلاف ہیں اور سرکار کا یہ قانون غلط نہیں ہے۔ مسلمانوں کو اپنی بقا ء اور اپنی عزت نفس کی بحالی کیلئے ان چچا اور بھتیجے کے سحر سے نکلنا ہوگا۔ یہ کب اور کس وقت ان کا سودا کریں گے، ان سے کوئی بعید نہیں۔ ہندو قوم پرست حکمران بی جے پی نے شہریت ترمیمی قانون کا گڈھا تو مسلمانوں کیلئے ہی کھوداتھا ، مگر اسکے خلاف سب سے زیادہ ردعمل شمال مشرقی ریاستوںخصوصاً آسام میں دیکھنے کو ملا۔ 1985ء میں اسوقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی اور آسام کے لیڈروں کے درمیان ایکارڈ میں طے پایا گیا تھا کہ مارچ1971ء سے قبل آئے غیر ملکیوں کو بھارتی شہریت تفویض کی جائیگی اور اسکے بعد آنے والوں کو شہریت کی فہرست سے خارج کیا جائیگا۔مگر موجودہ قانون کے مطابق غیر مسلم پناہ گزینوں کیلئے اس کا دائرہ اب 2014 ء تک بڑھادیا گیا ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں برپا سیلاب کو روکنا فی الحال حکومت کیلئے ناممکن لگ رہا ہے۔ مغربی بنگال ،کیرل اور پنجاب جیسی ریاستوں نے اپنے یہاں اس قانون کو نافذ نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یہ قانون تو بظاہر آسام کے پشتینی باشندوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے بنایا گیا تھا، اسی ریاست میں اس کی سب سے زیادہ مخالفت ہو رہی ہے۔ صوبے کا نظام پوری طرح درہم برہم ہوگیا ہے۔نقل وحمل کے تمام ذرائع ٹھپ ہیں۔راشٹریہ سیوک سیویم سنگھ یعنی آرایس ایس اور بی جے پی کے لیڈران جنہوں نے آسام میں غیر ملکی دراندازوں کو مسئلہ اٹھا کر این آر سی کو نافذ کرایا تھا‘ ان کی جان پر بن آئی ہے۔بقول معروف صحافی معصوم مراد آبادی کے بھارت کے مختلف صوبوں کے باشندوں کو اپنی زبان ،تہذیب،ثقافت اور علاقائی شناخت سب سے زیادہ عزیز ہے اور وہ اس معاملے میں مذہب کو دور رکھتے ہیں۔ حکمراں بی جے پی کا خیال تھا کہ وہ ملک کے عوام کو ہندوتوا کی ڈور میں پرو کر ان تمام اختلافات اور تضادات کو ختم کردے گی ، لیکن اسکا خیال بالکل غلط ثابت ہوا ہے کیونکہ شمال مشرقی ریاستوں آسام ،تری پورہ ،منی پور، میگھالیہ ، میزورم اور ارونا چل پردیش کے با شندوں نے اس قانون کے خلاف طوفان کھڑا کردیا ہے ۔ ان صوبوں کے اصلی با شندوں کو یہ خوف ستا رہا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کا فائدہ اٹھا کر بنگلہ دیش کے بنگالی ہندو ان کے علاقوں میں بری طرح چھا جائیں گے۔یہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں یہاں آچکے ہیں اور ان کی آمد کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔احتجاجی تحریک کے دوران آسام کے وزیراعلیٰ اور ان کے کابینی رفقا اور بی جے پی لیڈروں کے گھروں پر ہی حملے نہیں ہوئے ہیں بلکہ آرایس ایس کے دفتروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔دوسری طرف جنوبی بھارت کی تامل ہندو آبادی بھی اس قانون سے خفا ہے۔ اسی طرح سے اس قانون میں نیپال کی بھارت نژاد مدھیشی ہندو آبادی کو بھی شامل نہیں کیا گیا ہے۔ (ختم شد)