خیر مودی نے جوشی کو ایک جھنڈا تھما دیا مگر وہ اس کو لگا نہیں پا رہے تھے۔ کہیں قریب ہی گولیوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ جس پر مدن لال کھورانہ نے لقمہ دیا کہ عسکریت پسند اس جھنڈے کو سلامی دے رہے ہیں۔ کئی بار کی کوشش کے بعد بھی جب جھنڈا نصب نہیں ہوا تو بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکاروں نے جوشی کے ہاتھ میں متبادل جھنڈ ا تھما دیا، جس کو انہوں نے نصب کرکے تقریب کے ختم ہونے کا اعلان کیا اور ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس پوری تقریب میں شاید ہی کوئی مقامی فرد شریک ہو ا ہوگا۔ پوری وادی میں انتہائی سخت کرفیو نافذ تھا۔ خیر 1993سے اب تک دریائے جہلم میں کافی پانی خون کے ساتھ بہہ چکا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ راہول گاندھی کی یاترا کا حشر جوشی جیسا نہیں ہوگا۔ اس یاترا کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ایک طویل مدت کے بعد کانگریس نے نظریاتی طور پر بی جے پی اور اسکی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا ہے۔ اس سے قبل خاص طور پر راہول گاندھی بی جے پی کے سخت گیر ہندو تو اکے مقابلے نرم ہندو توا کے علمبردار بن گئے تھے۔ اس لئے ان کو بی جے پی کی ’’بی‘‘ ٹیم سے بھی تشبیہ دی جاتی تھی۔ سوال کئے جاتے تھے، اگر عوام کے پاس بغیر ملاوٹ کے ہندو توا موجود ہے تو وہ کیوں ملاوٹ والی ہندو توا کی طرف جائینگے۔ لگتا ہے کہ کانگریس کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ نظریاتی طور پر بی جے پی اورمودی کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔اس مارچ کے دوران پارٹی کو از سر نو منظم کرنے کے علاوہ راہول نے سول سوسائٹی کے افراد کے ساتھ مل بیٹھ کر ہندو توا نظریہ کے مخالفین کو منظم کرکے ایک نظریاتی محاذ بنانے کی کوشش کی ہے۔ کانگریس پارٹی کے ترجمان جے رام رمیش کا کہنا ہے کہ اس یاترا کا مقصد ’’آر ایس ایس اور بی جے پی کا نظریاتی مقابلہ‘‘ کرنا ہے۔انکے مطابق اس مارچ کا مقصد راہول گاندھی کو2024لوک سبھا انتخابات کے لئے وزیراعظم امیدوار کے طور پر پراجیکٹ کرنا نہیں ہے‘۔ انہوں نے زوردیکر کہاکہ پیدل یاترا کا انتخابات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ خوف اور نفرت کی سیاست کے خلاف عوام کو متحد کرنا ہے۔ پیدل مارچ کے دوران راہول گاندھی تین اہم مسائل اٹھارہے ہیں جو معیشت‘ عدم مساوات‘ سماجی پولرائزیشن اور سیاسی آمریت ہیں۔ وہ لوگوں سے بات چیت‘ خطاب اور کارنرتقریروں میں ان ایشوز کواٹھا کر لوگوں سے غور و فکر کرنے کی بات کرتے ہیں۔ سیاسی عہدے اور اقتدار کے جال سے بچتے ہوئے، گاندھی نے لوگوں کے ساتھ براہ راست تعلق قائم کرنے طاقت مرکوز کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ سمجھ چکے ہیں کہ مودی کی مضبوط حکمت عملیوں اور اسکے پاپولزم کا مقابلہ مختلف طبقات کے افقی اتحاد کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ ان کا یہ قدم اس لحاظ سے اہم ہے کہ ملک کی تاریخ میں کسی فرد یا پارٹی نے ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے دفاع میں پہلی بار اتنی لمبی اور طویل مدتی پیدل یاترا نکالی۔ اس ضمن میں راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ وہ ‘‘نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے ’’ کا کام کر رہے ہیں۔اسکے علاوہ وہ کارپوریٹ انڈیا کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، جو مودی حکومت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ مودی حکومت کے دور میں اڈانی اور امبانی خاندانوں کی کی دولت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور دوسری طرف عام لوگوں کی آمدنی مسلسل کم ہوئی ہے۔ دہلی میں پڑائو کے دوران لال قلعہ کی فصیل سے اپنی تقریر میں راہول گاندھی نے کہا کہ کارپوریٹ کے ماتحت اور نریندر مودی حکومت کی حمایت یافتہ ٹی وی چینلز بس ‘‘ہندو- مسلم’’ منافرت کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔ میڈیا کا ‘‘ہندو- مسلم’’ راگ الاپتے رہنا دراصل ملک کی سالمیت، لڑکھڑاتی معیشیت اور دبے کچلے لوگوں کے حقیقی مسائل کو بلیک آوٹ کرنے کے مترادف ہے۔ راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کو متحد کرنے نکلے ہیں، مگرحکمران جماعت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی تو پوری دنیا کو بھارت کی لیڈرشپ کے تحت متحدکرنے نکلے ہیں۔ ان کا کہنا ہے اس سال بھارت گروپ 20ممالک یعنی جی 20کی صدارت کر رہا ہے اور اسی سال ستمبر میں نئی دہلی میں اس کے راہنماوں کے چوٹی کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ بی جے پی نے تو اس پر اتنا طوفان بدتمیزی کھڑا کیا گیا ہے کہ جیسے اقوام عالم میں مودی نے بھارت کو کوئی بڑی سیٹ دلوائی ہے۔ اس گروپ کی صدارت تو ہر سال تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ بی جے پی اس سال بھارت کی گروپ 20ممالک یعنی جی 20کی صدارت ، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور اسکو درشن کیلئے اگلے سال جنوری میں کھولنا ایک اہم انتخابی موضوع بنا رہی ہے۔ اس دوران سب سے اہم بات یہ ہو گئی ہے کہ رام مندر کے مہنت اور اس کے دیگر ذمہ داروں نے بھی راہول گاندھی کی یاترا کی حمایت کی ہے، جس سے لگتا ہے کہ اس پیدل مارچ نے کہیں نہ کہیں ہندو توا کے نظریہ میں سوراخ کردیا ہے۔ مگر یہ بھی طے ہے کہ اگلے عام انتخابات میں بی جے پی ہندوتوا کو اپنے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے جا رہی ہے۔ اس لئے پاکستانی حکمران اور اسکے تجزیہ کار کتنی ہی خوشامد اور تعلقات کی بہتری کی بات کریں، فی الحال مودی حکومت یہ پاٹھ سننے کے موڑ میں نہیں ہے۔ گو کہ مئی میں بھارت کے گوا صوبہ میں ہونے والی شنگہائی کوآپریشن کے وزراء خارجہ کی کانفرنس میں پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور وہ اس میں شرکت کرنے کیلئے جا رہے ہیں۔ مگر کسی سنجیدہ پیش رفت کی امید رکھنا فی الحال عبث ہوگا۔ اگلے سال ہونے والے انتخابات سے قبل مودی حکومت عوام کو یاد دلائے گی، کہ کسی طرح صدیوں سے مسلمانوں نے اس ملک کو اور ہندوئوں کو زخم لگائے ہیں۔ پاکستان پر لفظی یا حقیقی حملے ہونگے، تاکہ اس شور میں بے روزگاری اور مہنگائی جیسے موضوعات دب جائے۔ راہول گاندھی کیلئے سب سے بڑا چیلنج اس بیانئے کا توڑ کرنا ہوگا۔ اس یاترا کے دوران ان کے سیاسی پیغامات کو ان لوگوں نے بھی سراہا ہے جو کانگریس کے حامیوں میں شمار نہیں ہوتے ہیں۔ مخالفین کی طرف سے پپو اور راہول بابا جیسی پھبتیاں اب فٹ نہیں ہو پارہی ہیں۔ یقینی طور پر بھارت کے سیاسی منظر نامے میں ایک ایسے لیڈر کے لیے جگہ بن رہی ہے جو مودی کو چیلنج کر سکتا ہو۔ لیکن اس کیلئے اپوزیشن اتحاد کے ساتھ تنظیمی مشینری کو بحال کرنے، طاقت ور بیانیہ اور نظریہ کی فوری ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو لاکھ یاترائیں بھی مودی یا بی جے پی کا رتھ نہیں روک پائیں گی۔ (ختم شد)