یہ کہنے میں کسی قسم کا شائبہ نہیں کہ ہندوستان فی الوقت انسانی بحران کی گرفت میں ہے اور مسلسل کورونا وائرس کے قہر کا سامنا کررہا ہے۔ کورونا سے خوف کے باعث قومی سطح پر نافذ کیا گیا لاک ڈاون ایک بہت بڑی تباہی ثابت ہوگا۔ جس وقت پہلی مرتبہ لاک ڈاون نافذ کیا گیا میرا بھی یہی خیال تھا کہ اس کی تائید کی جانی چاہئے اس وقت میں یہ سمجھ رہی تھی کہ یہ ایک قلیل مدتی ناگزیر اقدام ہے لیکن اب اس تعلق سے میرا موقف تبدیل ہوگیا ہے اور لاک ڈاون کی میں کٹر مخالف بن گئی ہوں۔ میں ان خیالات کا یوں ہی اظہار نہیں کررہی ہوں بلکہ پچھلے 60 دنوں سے میں نے 9 مختلف ریاستوں کا دورہ کیا، سڑکوں کے ذریعہ سفر کرتے ہوئے حالات کا بغور جائزہ لیا۔ ملک کے شمال، مغرب اور جنوبی حصے میں گھوم پھر کر لوگوں سے ملاقات کی، ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی اور ماحول کا اچھی طرح جائزہ لیا۔ میں نے دیکھا کہ ملک میں خوف پایا جاتا ہے، لوگ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوگئے ہیں، معیشت کے تباہ ہونے اور خراب مالی حالت کے نتیجہ میں خلل ذہنی کا شکار ہوئے۔ اقتصادی تباہی و بربادی نے انہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ میں نے ملک کے ان حصوں میں انتہائی غیر یقینی کے حالات کا مشاہدہ کیا۔ ملک میں پہلے مرحلہ کا لاک ڈاون نافذ کئے جانے کے ابتدائی 72 گھنٹوں میں شہروں سے نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کا ایک طوفان اْمڈ پڑا کیونکہ ان لوگوں کو ہمارے پالیسی سازوں، سیاست دانوں اور میڈیا نے پوری طرح فراموش کردیا تھا۔ یہ ایسے لوگ تھے جنہیں ہمارے ملک کے سسٹم نے یتیم بناکر بنا کسی تنخواہوں یا کام کے چھوڑ دیا تھا۔ مزدوروں کے بعد مزدوروں اور ریاستوں کے بعد ریاستوں سے بالترتیب بات چیت اور دوروں سے مجھے اس بات کا پتہ چلا کہ مزدور ان شہروں میں مرنے کی بجائے اپنے گھروں میں مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ آپ کو یہ بتانا ضروری ہوگا کہ جن جن ریاستوں کا میں نے دورہ کیا وہاں مزدوروں سے بات کی، ان مزدوروں نے مجھے یہی بتایا کہ اگر مرنا ہی ہے تو وہ دوسرے شہروں میں مرنے کی بجائے اپنے گھروں میں اور اپنے عزیز و اقارب کے درمیان مرنا پسند کریں گے۔ مائیگرینٹ ورکروں سے متعلق بلند بانگ دعوے ہم نے کئے لیکن سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم نے انہیں یکسر نظرانداز کردیا۔ پھر انہیں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دیا اور پھر ان سے ٹھہرے رہنے کے لئے کہا گیا پھر ان مزدوروں سے کہا گیا کہ وہ ٹرینوں میں جا سکتے ہیں جس کے لئے انہیں کرایہ ادا کرنا پڑے گا اور ان سے کرایہ بھی حاصل کیا گیا۔ آج اگر ہم ہندوستان کی افراد قوت پر نظر دوڑاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ افرادی قوت برہمی اور بے چینی کا شکار ہے۔ یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ لاک ڈاون کی بعض تحدیدات میں بالآخر نرمی کی گئی اور اب ہم فیکٹریوں کی دوبارہ کشادگی کی بات کررہے ہیں۔ جن مزدوروں سے میں نے ملاقات کی وہ پہلے سے کہیں زیادہ پرعزم و چوکس دکھائی دیئے اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ کام پر واپس نہیں آئیں گے ۔لیکن اب بھی یہ مفروضہ پایاجاتا ہے کہ گذرتے وقت کے ساتھ یہ مزدور واپس ہوں گے، میرا احساس مختلف ہے۔ بھیونڈی مہاراشٹرا میں رات کے ایک بج رہے تھے جب ہماری کار ایک ایسے مقام پر پہنچ کر رک گئی جہاں ایک بچہ رو رہا تھا ہم نے نظریں دوڑائیں تو کچھ فاصلے پر وہ ہمیں نظر آیا۔ رات کی بھیانک تاریکی میں ہم نے مردوں خواتین اور درجنوں چھوٹے چھوٹے بچوں کو پیدل چلتے ہوئے دیکھا جو اترپردیش کے گورکھپور جارہے تھے۔ انہیں اپنے گاوں پہنچنے کے لئے پیدل ہی 1500کلو میٹر کا طویل فاصلہ طے کرنا تھا۔ میرا یہ احساس تھا کہ وہ لوگ ٹرینوں اور بسوں میں جانے کی کوشش کرسکتے تھے جو حکومتوں نے ان مزدوروں کے لئے مقرر کئے تھے لیکن ان لوگوں نے بسوں یا ٹرینوں پر توجہ نہیں دی بلکہ وہ اس قدر مایوس تھے کہ کسی بھی حال میں اپنے گھر پہنچنے کے خواہاں تھے۔ ممبئی میں ایک پولیس چیک پوائنٹ پر ایک ٹرک کو روکا گیا اس وقت یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا پولیس انہیں آگے جانے کی اجازت دے رہی تھی یا نہیں اور وہ لوگ گاڑی کا پچھلا دروازہ ہمارے لئے کھولنے تیار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ ایسے میں ہم نے گاڑی پر چڑھنا شروع کیا جب گاڑی پر چڑھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک چھوٹی سی جگہ میں درجنوں ورکرز پھنس کر بیٹھے ہوئے۔ وہ دراصل اترپردیش فرار ہو رہے تھے۔ جب میں نے یہ کہنے کی کوشش کی کہ اس وقت ایک مقام پر لوگوں کا جمع ہونا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ان میں سے ایک نے چیخ کر کہا میں بی ایس سی ہوں اور مجھے بھی کورونا وائرس کے خطرات سے بہ خوبی واقفیت ہے لیکن میں یہاں بھوک سے مرنے کی بجائے گھر میں کورونا وائرس سے مرنا چاہوں گا۔ دو ماہ کے دوران میں نے ہندوستان کے مختلف مقامات کا دورہ کرتے ہوئے جن مزدوروں سے بات کی مذکورہ مزدور کی بات اس کا لب لباب ہے۔ میں نے رنویر سنگھ نامی اس مزدور کے ارکان خاندان سے بھی ملاقات کی جو آگرہ میں اپنے گاوں سے 80 کلومیٹر پہلے ہی حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کرگیا۔ میری ملاقات مکیش منڈل کے ارکان خاندان سے بھی ہوئی جس نے ایک پنکھا اور کچھ راشن خریدنے کے لئے اپنا فون 2500 میں فروخت کردیا اور پھر اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ ہندوستان کے غریب لاک ڈاون سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تنخواہ حاصل کرنے والا متوسط طبقہ بھی خطرات میں گھرا ہے۔ مختلف شعبہ جیسے شہری ہوابازی اور مہمان نوازی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پڑوسی، مریضوں اور ہیلتھ ورکرز کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کرتے جارہے ہیں اور مختلف سوسائٹیز کے صدور گھریلو کام کاج کرنے والوں ڈرائیوروں اور باورچیوں کے خلاف متعصب ڈکٹیٹرز بنتے جارہے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں زیادہ اموات نہیں ہوئی ہیں حالانکہ ہمارے ملک میں ٹیوبرکلوسیس یا ٹی بی، کینسر اور امراض گردہ میں مبتلا ہزاروں مریض اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہندوستان میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی شرح نہ صرف دنیا کے دیگر ممالک کی بہ نسبت کم ہے بلکہ غیر کورونا وائرس امراض سے مرنے والوں کی تعداد بھی یہاں کم پائی جاتی ہے لیکن اگر ہم لاک ڈاون فوری اثر کے ساتھ اٹھانے میں ناکام رہتے ہیں تو ایسے میں ہمیں ایک بہت بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور ہماری سماجی، اقتصادی اور جذباتی ساخت ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔ (بشکریہ: رونامہ سیاست بھارت)