آج جہاں خطے میںچین ،بھارت کشمکش عروج پر ہے اور تادم تحریرچین نے لداخ کی وادی گلوان میں خم ٹھونک کرنہایت بلندآہنگی کے ساتھ اپناتازہ قبضہ برقرار رکھا ہواہے اورجرنیل سطح کے مذاکرات کے دوران اس نے اپنی نئی پوزیشن سے ایک انچ پیچھے ہٹنے سے صاف انکار کیا ہے ۔نیپال کاشماراس خطے کے ایک خوبصورت ملکوں میں سے ہوتا ہے لیکن نیپال میں بھارت کا سیاسی تداخل ہے۔ بھارتی تداخل کے باعث اسے اقتصادی اضمحلال درپیش رہاہے اوراسکے معاشی حالات کمزور ہیں۔ افسوس یہ کہ پہلے بھارت نے نیپال کواقتصادی لحاظ سے اپنا دست نگر بنا ڈالالیکن اب وہ اس کی سرحدوں کوپامال کر کے جغرافیہ کابھی قلع وقمع کرتے ہوئے اسے ہضم کرنے پر تلا ہوا نظر آ رہا ہے۔ بھارت کے حالیہ اقدام سے نیپالی عوام کی ناراضی دور کرنے کے لیے نیپالی وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے ملکی پارلیمان سے بھارت کوبلیغ پیغام پہنچایاکہ ’’نیپال اپنی زمین کا ایک انچ بھی نہیں چھوڑے گا‘‘۔خیال رہے کہ نیپال نے بھارت کے خلاف اس وقت سخت ناراضی کا اظہار کیا کہ جب بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 8مئی 2020 ء جمعہ کو چین کے ساتھ منسلک حقیقی کنٹرول لائن پر واقع’’ لیپو لیکھ ‘‘کے قریب سے ہو کر گزرنے والی اتراکھنڈ کیلاش مانسرور سڑک کا افتتاح کیا۔نیپال کا کہنا ہے کہ بھارت نے اس کے لیپولیکھ علاقے میں 22کلومیٹر لمبی سڑک تعمیر کی ہے جونیپال کی جغرافیائی سرحدکی حدودکی کھلم کھلاخلاف ورزی ہے۔ لیپو لیکھ وہ جگہ ہے جہاں بھارت، نیپال اور چین کی سرحدیں ملتی ہیں۔ بھارت نے نیپال کی جغرافیائی حدودکوپامال کرنے اورنیپال کے ایک بڑے حصے کوہضم کرنے کے لئے جوبہانہ تراشاوہ یہ کہ ہندو اساطیریادیومالائی کہانیوں کے مطابق کیلاش مانسرور شیوا کی جائے قیام ہے اوربھارت کے ہندو ہر سال وہاں یاترا کے لیے جاتے ہیں۔بھارت کاکہناہے کہ اس سڑک کی تعمیر سے بھارتی یاتریوں کی آمد و رفت میں کافی سہولت ہوگی۔ لیکن سڑک کے افتتاح کے بعد نیپال میں بھارت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس کے بعد نیپالی وزیر اعظم کو کل جماعتی اجلاس طلب کرکے وضاحت کرنی پڑی۔ نیپال کی وزارت خارجہ نے بھی کٹھمنڈو میں بھارت کے سفیر کو اپنے دفتر میں طلب کر کے سخت احتجاج کیا اور کہا بھارت نیپال کے علاقے کے اندر اس طرح کی کسی بھی سرگرمی سے گریز کرے۔ دوسری طرف15مئی 2020ء جمعہ کوکو بھارت کے آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے نے یہ بیان دیا کہ بھارت کی طرف سے مذکورہ سڑک کی تعمیر میں انہیں کچھ متنازع نہیں دکھائی دیتا ہے۔بھارتی آرمی چیف کا کہنا تھا کہ نیپال ایسا چین کے اشارے پر کررہا ہو۔ نیپال نے بھارتی آرمی چیف کے بیان کی سخت مذمت کی اور نیپال کے وزیر دفاع ایشور پوکھریال نے بھارتی آرمی چیف کے بیان کو نیپال کی توہین قرار دیا ہے۔بھارتی آرمی چیف کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا کہ جب چین کی فوجیں لداخ میںوسیع علاقے کواپنے قبضے میں لے چکی ہے۔نیپال کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے سرحدی تنازع کو بھارت کے سامنے کئی مرتبہ اٹھایا ہے لیکن بھارت کی کان پرجوتک نہیں رینگی۔ نومبر 2019 ء میں بھارت کی طرف سے ایک نقشہ شائع کیاگیاتھااس نقشے میں نیپال کے کالاپانی نامی علاقے کو بھارتی ریاست اترا کھنڈ کا حصہ دکھایا گیا ہے ۔ پر نیپال نے سخت اعتراض کیا تھااوربھارت کومتنبہ کیاتھاکہ اس نقشے میں پائے جانے والی سرحدی ہیر پھیرکودرست کرلیاجائے ۔ اس نقشے کی اشاعت کے بعد نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ نیپال کی حکومت نے بھارت کے اقدام کو یک طرفہ قرار دیتے ہوئے اسکی شدید مذمت کی اور اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی بین الاقوامی سرحد کی حفاظت کرے گا۔ کالا پانی سطح سمندر سے20 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور 1962ء کے بھارت چین جنگ کے بعد بھارت نے یہاں اپنی فوجیں تعینات کردی تھیں۔ اتنی بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ کافی فوجی اہمیت کا حامل ہے۔اس کے قبل نیپال اور بھارت کے درمیان تعلقات میں2015ء میں اس وقت تلخی سامنے آئی جب نیپال میں نئے آئین کے نفاذ کے خلاف بھارتی نژاد مدھیشی برادری نے سڑک جام کردی تھی۔ اس کی وجہ سے نیپال کو کافی اقتصادی پریشانی اٹھانی پڑی۔ نیپال نے بھارت پر مدھیشیوں کی سرپرستی کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔یوں تو نیپال اور بھارت کی سرحدیں کھلی ہوئی ہیں اور لاکھوں نیپالی بھارت میں ملازمت اور کاروبار کرتے ہیں لیکن حالیہ عرصے میں دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کے پی اولی اور ان کی نیپال کمیونسٹ پارٹی کا جھکا ئوچین کی طرف ہے۔ نیپال کہتاہے کہ سوال یہ نہیں کہ نیپال کا کس کی طرف جھکائو ہے یانہیں بنیادی سوال یہ ہے کہ نیپال اپنے علاقوں پربھارت کے جھوٹے دعوے پرکیسے خاموش رہ سکتا ہے ۔اسی تناظرمیں گزشتہ کئی برسوں سے نیپال میں بھارت مخالف نعروں کی گونج اکثر سنائی دیتی ہے۔ بھارت کے معروف اخبار دی ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2019ء میں جب بھارت نے جس طرح ریاست جموں و کشمیر کواپنے نئے نقشے میں جموں و کشمیر اور لداخ کوبھارت کے زیرانتظام کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ اس نقشے میں نیپال کے کئی علاقوںلمپیادھورا، کالاپانی اور لیپولیکھ کوبھی انڈیا کا حصہ بتایا گیا ہے۔اخبار کا کہنا ہے کہ بھارت کے اس اقدام کے بعد نیپال کا چین کی طرف جھکائو بڑھا ہے۔ اخبار لکھتاہے کہ بھارت کا خیال ہے کہ لیپولیکھ میں سڑک کے افتتاح کو بڑی دھوم دھام سے نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ٹائمزآف انڈیاکے مطابق ایسا خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس مسئلے پر نیپال کے بڑھتے ہوئے اقدامات کی وجہ سے اب دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔