نیپال نے جس طرح پارلیمنٹ میں اتفاق رائے سے آئین میں ترمیم کرکے ملک کا نیا نقشہ جاری کرکے متنازعہ سرحدی علاقوں کو اس میں شامل کیا، اس قدم سے بھارت میں سخت ناراضگی ہے۔چند ماہ قبل بھارت نے بھی کچھ اسی طرح کا قدم اٹھا کر جموں و کشمیر کیلئے نئے نقشہ ریلیز کیا تھا۔ 2018ء میں بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کو عوامی غیظ و غضب سے بچانے اور واپس اقتدار میں لانے کیلئے بھارت نے خاصا کردار ادا کیا تھا۔ ان انتخابات میں استعمال ہوئی الیکٹرانگ ووٹنگ مشینیں بھارت کے گجرات صوبہ سے آئی تھیں۔ جنکو خود بھارت میں ہی شک وشبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔بھوٹان کے وزیرا عظم جگمے تھنلے نے 2012 ء میں جب برازیل میں چینی ہم منصب وین جیابو سے ملاقات کی، تو بھارت نے ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی روک دی۔ اگلے سال 2013ء میں تھنلے کو اقتدار سے بے دخل کروایا۔ اسی طرح سری لنکا میں سنہالا بد ھ قوم پرست گوٹا بایا راج پکشانے بھی چند سال قبل الزام لگایا تھا کہ 2015ء میں بھارتی خفیہ ایجنسی نے ان کو انتخابات میں ہرانے میں کردار ادا کیا تھا۔ سری لنکا تو 1971کی بھارت ۔پاکستان جنگ کے بعد ہی بھارتی خفیہ اداروںکے نشانہ پر آگیا تھا۔ کانگریس پارٹی کے اہم عہدیدار نے چند برس قبل راقم کو بتایا تھا کہ 1984ء میں اگر وزیر اعظم اندرا گاندھی کو سکھ باڈی گارڈ ہلاک نہ کرتے تو بنگلہ دیش کی طرز پر سری لنکا کے شمالی علاقہ جافنا پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت وجود میں آگئی ہوتی۔ ان کے مطابق مسزگاندھی نے سری لنکا کو1971ء کی جنگ میں پاکستان کی معاونت کرنے پر کبھی معاف نہیں کیا۔ سر ی لنکا نے پاکستانی فضائیہ اور ڈھاکہ جانے والے سویلین جہازوں کے لئے کولمبو میں ایندھن بھرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے فوراً بعد آنجہانی مسزگاندھی اور ان کے رفقا نے تامل علیحدگی تحریک کا رخ سری لنکا کی طرف موڑتے ہوئے تامل ناڈوکو مستقر بنا کر تامل انتہا پسندوںکوگوریلا جنگ کے لئے تیارکرنا شروع کردیا تھا۔ پچھلے 70سالوں سے بھارت صرف سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ سمندری اور زمینی حدود کا تعین کرسکا ہے، جو اسکی سفارتی اہلیت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ حتیٰ کہ بھوٹان کے ساتھ بھی سرحدوں کا حتمی تعین نہیں ہوسکا ہے ۔ دوسری طرف چین نے 14میں سے 12پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدی تنازعوں کو حل کرلیا ہے۔ اور ان میں سے اکثر معاہدوں میں چین نے ہی ایک بڑا ملک ہونے کے ناطے دعویٰ واپس لیکر اور کچھ زمین چھوڑ کر امن کا دامن تھام لیا ہے۔ سائوتھ چائنا سمندر میں اسکے سمندری حدود کا قضیہ، اس علاقے میں امریکی مفادات کی وجہ سے ہنوز تعطل کا شکار ہے، جس میں بھارت اب ایک فریق کے بطور ابھر رہا ہے۔ گو کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے نام پر مودی نے جنوبی ایشیائی تعاون تنظیم سارک کی احیائے نو کی کوشش کی، مگر پچھلے چھ سالوں سے بھارت نے اس تنظیم کی بیج کنی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کے نام پر اس کے مقابل نیپال، بھوٹان، برما ، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ اور سری لنکا پر مشتمل بیمسٹیک یعنی BIMSTECتنظیم بنائی گئی۔ اس کے علاوہ سارک کے اندر ہی ایک اور ذیلی تنظیم برما، بنگلہ دیش، بھارت اور نیپال پر مشتمل BBINتنظیم بنائی گئی۔ اسی طرز پر مالدیپ اور سری لنکا پر دبائو بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ بھی بھارت کو شامل کرکے ایک ذیلی تنظیم بنالیں۔ پاکستان کے مغرب میں ایران کے چاہ بہار پورٹ کو مرکز بنا کر ایران، افغانستان اور چند دیگر وسط ایشیائی ممالک کو باور کرایا جا رہا ہے کہ وہ بھی بھارت کو ساتھ مل کر ایک ذیلی تنظیم بنالیں۔ سارک کے حوالے سے بھارت کو 2014ء سے تشویش لاحق ہو گئی ہے، جب کھٹمنڈو سربراہ کانفرنس کے دوران نیپال نے چین کو اس تنظیم میں شامل کرنے کی تجویز دی، جس کی بھارت نے سخت مخالفت کی۔ 1977ء میں جب جنتا پارٹی اقتدار میں آئی تواس وقت کے وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی نے پڑوسی ممالک کے ساتھ اشتراک کی تجویز رکھی تھی مگر اس حکومت کا جلد ہی خاتمہ ہوگیا۔ اس پالیسی کا اعادہ 1996ء میں اندر کمارگجرال نے کیا تھا مگر وہ ایک کمزور حکمران تھے۔ دو سال بعد واجپائی ایٹمی دھماکہ کرکے کشیدگی کو نقطہ انتہا تک لے گئے، چند ماہ بعد ہی انہیں ادراک ہوگیا کہ ایٹم بم اپنی جگہ مگر اشتراک کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اپنے چھ سالہ دورمیں پارلیمنٹ حملہ اور کارگل کے ہوتے ہوئے بھی وہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کوشاں رہے اور دیگر پڑوسی ممالک کا خوف دور کر کے یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ بھارت ایک غیر متوازن پاور نہیں بلکہ ان کی ترقی میں معاون بن سکتا ہے۔ نئی دہلی میں اکثر حکومتیں خطے میں بھارت کو ایک بارعب پاورکے طور پر منوانے کی کوششوں میں مصروف رہیں ہیں مگر یہ بیل کبھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔ مودی اسی روش پر چل پڑے ہیں، یعنی پڑوسی ممالک کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھا جائے اور پاکستان کے اردگرد حصار قائم کیا جائے۔ مگر اب اس گیم میں چین دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کا کام کر رہا ہے، جس کی شہہ پر چھوٹے پڑوسی ممالک بھارت کی نو آبادیاتی طرز فکر کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جمہوری روایات کا پاس رکھتے ہوئے بھارت اس خطے میں شفیق اور بااعتماد لیڈرشپ کا رول ادا کرکے تنازعوں کو سلجھا کر مودی کے نعرہ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کو واقعی عملی جامہ پہنا لیتا۔ (ختم شد)