جب چین کے ساتھ بھارتی بارڈر پر برف پگھلنے لگتی ہے تو وادی میں محسور کن ہوا اور خوبصورت مناظر قابل دید ہوتے ہیں۔ ماضی میں اسی سرحدی علاقوں میں بارڈر پولیس کے چند جوانوں کو صرف لاٹھیوں سے مسلح کیا جاتا تھا لیکن اس سال سیٹلائٹ کی مدد سے دونوں ممالک نے سرحد پر تیزی سے فوجی تعمیرات مکمل کرلی ہیں جس کی وجہ سے جوہری طاقت سے لیس دو پڑوسیوں کے درمیان جنگ کا خطرہ بڑھ گیا تھا۔ لداخ میں وادی گلوان میں چینی فوج کے ساتھ گزشتہ سال ہونے والی جھڑپوں کے بعد بھارت نے ساٹھ ہزار فوجی اور بھاری توپ خانہ وہاں تعینات کیا ہے۔ ان جھڑپوں میں کم از کم 24 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ چین نے اپنی طرف خود کار مارٹر کے ساتھ مشقیں کی تھیں جبکہ دونوں ممالک کے درمیان 1996ء میں سرحد پر بندوقیں اور دھماکہ خیز مواد استعمال نہ کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ دفاعی ماہرین کے مطابق اس صورت حال کے بعد بھارت کو جنگ بندی کے باوجود سرحدوں پر پاکستان اور چین کے دو محاذوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو بھارت کے لیے ناقابل قبول صورت حال ہے۔ بھارت کو چین کی طرف سے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔ خاص طور پر پیپلز لبریشن آرمی کی طرف سے سرحد پر جدید ٹیکنالوجی کی منتقلی کی وجہ سے یہ خطرہ مزید بڑھ رہا ہے۔ گو اس وقت دونوں ممالک کے درمیان نہ تو جنگ ہورہی ہے نہ ہی کوئی تنائو ہے مگر جب خطرہ بڑھتا ہے تو آپ اس کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ چین لائن آف ایکچول کنٹرول پر 3800 کلومیٹر کے علاقے کے اندر گھس آیا تھا اور چین نے ایل اے سی پر نئی فوجی چوکیاں بھی بنالی تھیں۔ ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق چین سے یہ دراندازی بھوٹان اور نیپال کی سرحد پر کی گئی۔ اس کارروائی کے دوران وادی گلوان میں دست بدست لڑائی میں بھارت کے 20 فوجیوں کو ڈنڈوں اور گھونسوں سے مار دیا گیا تھا اور ان کی لاشیں نیچے دھکیل دی گئی تھیں۔ چین نے بعد میں ان جھڑپوں میں اپنے چار جوانوں کی ہلاکت کا اعتراف بھی کیا تھا۔ اس وقت اپوزیشن نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کے اعلان کے دوران نریندر مودی پر یہ الزام لگایا تھا کہ ایک طرف وہ چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف چین کے صدرکے سامنے بھیگی بلی بنے بیٹھے ہیں۔ اسی دوران چین کے ہیکروں کی طرف سے چین سے باہر بیٹھ کر بھارت کے معاشی حب ممبئی پر سائبر حملہ بھی ہوا تھا۔ اس وقت عصاب شکن مذاکرات کے بعد چین نے پینگونک جھیل سے پیچھے ہٹنے پر آمادگی ظاہر کی تھی لیکن دوسرے فلیش پوائنٹ ڈیسانگ کے میدانی علاقوں اور ہاٹ اسپیئرنگ میں آج بھی چینی فوجی موجود ہیں۔ اس کے بعد ہی بھارت نے ایل اے سی کے ساتھ سڑکیں اور پل بنانا شروع کئے تاکہ سرحد پر فوج اور بھاری اسلحے کی منتقلی ممکن ہو سکے جہاں درجہ حرارت منفی 45 سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ اس کارروائی کے بعد ایک بھارتی دفاعی ماہر نے بتایا کہ چین کی اس اچانک کارروائی کے بعد ہی بھارت فوج اور اسلحہ کی ہنگامی اقدامات پر مجبور ہوا اور بھارت نے فوج اور اسلحہ کی سہل ترسیل کے لیے سرحد پر بنیادی ڈھانچہ بنایا۔ ان کے مطابق بھارت نے ایل اے سی پر انفراسٹرکچر کا پانچ سال کا کام پانچ ماہ میں مکمل کیا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان 1962ء میں جنگ ہوئی تھی جس میں بھارت کو ہزیمت اٹھانا پڑی تھی اس سے پہلے سرحد کی نگرانی تبت بارڈر پولیس کے سپرد تھی لیکن اب بھارت نے لداخ میں دو انفنٹری ڈویژن آرمی کور 14 کو مستحکم کرنے کے لیے تعینات کر دی ہیں‘ ان میں سے ایک ڈویژن پاکستانی سرحد سے یہاں منتقل کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ 10 ہزار فوجیوں کی تعیناتی کا بھی منصوبہ ہے۔ ان فوجیوں کو خاص طور پر چین اور پاکستان مقابلے کی تربیت دی گئی ہے۔ بھارتی آرمی چیف نے سرحد کے معائنے کے دوران بھی کہا ہے کہ بھارت کو ایک طویل سینڈ آف کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ ہم اس حوالے سے کسی ابہام کا شکار نہیں کہ سرحد پر تنائو کی صورت حال کے لیے اس وقت تک تیار رہنا ہوگا جب تک تمام پوسٹوں سے چین کی فوج نکل نہیں جاتی۔ ارونچل پردیش کے دورے کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ بھارت سرحد پر جدید ہتھیار زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل اور دیگر اسلحہ بارود منتقل کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہی رافیل جنگی جہاز بھی فرانس سے خریدے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارتی فوج ہلکے ٹینک بھی بنا رہی ہے۔ اسرائیل سے 4 ٹی پی ڈرائون بھی خریدے گئے ہیں تاکہ ایل اے سی پر بہتر نگرانی ممکن ہو سکے۔ اسی طرح چین کے اخبار گلوبل ٹائمز میں بھی یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ چین نے راکٹ لانچر اور بھاری اسلحہ سرحد پر منتقل کردیا ہے۔ چین نے تبت میں پاکستان کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں بھی کی ہیں۔ ایشین سکیورٹی کے تجزیہ کار ارزان تارا پوری نے دونوں اطراف کی تیاریوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگی تیاریوں میں ان کے نزدیک چین کی سرحد پر تنائو کی وجہ ہے۔ بھارت کی کشمیر کی سرحد پر فعالیت کم ہو گئی ہے۔ ہم افغانستان سے امریکہ کے انخلا کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد افغانستان سے بھی لوگ کشمیر میں آ سکتے ہیں‘ اس سال جب پہاڑوں پر برف پگھلے گی تو اس سال دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے خطرے کو ممکن ہے عارضی طور پر ٹال دے مگر سرحد گزشتہ کئی دہائیوں کی نسبت گرم ہوگی۔ (بشکریہ:دی ٹیلی گراف‘ ترجمہ: ذوالفقار چودھری)