پاکستان نے نئی دہلی کی جانب سے پاکستانی سفارتی عملے کی تعداد نصف کرنے کے فیصلے کے ردعمل میں50فیصد بھارتی سفارتی عملے کو بھارت واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارتی حکومت چین سے گلوان وادی میں ہزیمت اٹھانے کے بعد عوامی ردعمل سے بچنے کیلئے پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز رواں برس 11سو سے زائد مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کنٹرول لائن پر بلا جواز اشتعال انگیزی کر چکی ہیں۔ پاکستان بھارتی جارحانہ اقدامات کے باوجود مسلسل صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی برادری کو بھارتی اقدامات سے آگاہ رکھے ہوئے ہے یہاں تک کہ مودی سرکار کی ہٹ دھرمی اور گیدڑ بھبھکیوں کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کیلئے خیر سگالی کے طور پر دونوں ممالک کے کورونا سے تجربات سے استفادہ کرنے کی پیشکش بھی کی تھی جس کو بھارتی حکومت نے تکبرانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔ بھارتی حکومت پاکستان کے امن کیلئے مصالحانہ رویہ کو کمزوری تصور کر رہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا مبنی برانصاف ہے کہ بھارت جس قسم کارویہ اختیار کرے گا ویسا ہی جواب دیا جائے گا۔ بہتر ہو گا پاکستان بھارت کی اشتعال انگیزیوں کا بھر پور جواب دینے کے ساتھ عالمی سطح پر بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو بے نقاب بھی کرتا رہے تاکہ عالمی برادری بھارت کے جنگی جنون کو رفوکرنے کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے اور خطہ جنگ سے محفوظ رہ سکے۔