کالم کا یہ عنوان کسی مسلمان پاکستانی خصوصا ًعرف عام میں بد نام جہادی کی گفتگو یا خواہش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ گذشتہ نصف صدی سے برصغیر پاک وہند کے ادب کے مقبول ترین ''ادیب'' خشونت سنگھ کی 2003 ء میں شائع ہونے والی کتاب ''The end of India''ـ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ دراصل ان کی تحریروں کا ایک مجموعہ ہے جو وہ گجرات سانحہ کے حوالے سے وقتاً فوقتا ًلکھتے رہے اور پھر انہوں نے اسے فروری 2003 ء میں شائع کر دیا۔ یہ مضامین لکھتے ہوئے انہیں جس طعن تشنیع کا سامنا کرنا پڑا، دیباچے میں تحریر کرتے ہیں '' اپنے کالموں کے جواب میں مجھے ہندو بنیاد پرستوں کی طرف سے نفرت آمیز خط موصول ہو رہے ہیں۔ کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب مجھے کوئی ایسا خط یا پوسٹ کارڈ نہ موصول ہوتا ہو جس میں مجھے ہندوستان کے لیے لعنت نہ قرار دیا گیا ہو یا پاکستانی ایجنٹ نہ لکھا ہو''۔ اس طرح کی اور بھی ایسی گالیاں لکھی ہوتی ہیں کہ جو ناقابل اشاعت ہیں''۔ خشونت سنگھ نے اس تباہی کو بہت پہلے ہی سے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے گجرات کو ''ہندوتوا'' کی لیبارٹری کہا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ مجھے اس خطرے کی بُو 1998 ء میں اس وقت ہی محسوس ہو گئی تھی جب میں نے دیکھا کہ احمد آباد کی طرف جانے والی مرکزی شاہراہ پر لگے ہوئے بورڈوں پر احمد آباد کی جگہ ایمداواد (AMDAVAD) لکھوا دیا گیا ہے اور ایسا ایک سرکاری حکم نامے کے تحت کیا گیا تھا۔ خشونت سنگھ نے یوں اس بورڈ کی تبدیلی کے دن سے بھارت کے زوال کا نوحہ مرتب کیا ہے، لیکن ان کی اپنی ہی تحریریں آج سے پچاس سال قبل احمد آباد کے 1969 ء کے فسادات پر بھی خون کے آنسو روئی تھیں۔ آج 2019 ء میں جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے وہ اس قدر خوفناک ہے کہ کسی کو تاریخ کے پرانے زخم یاد کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ ہر روز ایک نئی کربلا برپا ہوجاتی ہے۔ 18 ستمبر 1969 ء وہ دن تھا جب احمدآباد میں فسادات پھوٹ پڑے۔ کانگریس کا ہتندر ڈیسائی گجرات کا وزیر اعلی تھا۔ ابھی ملک وجود میں آئے صرف 22 سال ہوئے تھے اور کانگریس کا سیکولر لبرل راج مستحکم تھااور انکا سیکولر منافقت کے پردے میں جو مسلمان دشمنی پوشیدہ تھی اس نے دو ہزار انسانوں کی جان لے لی تھی۔ اڑتالیس ہزار مکان اور دکانیں نذر آتش کردیں گئیں اور زخمیوں کی تعداد کا کوئی شمار نہ تھا۔ فسادات کا آغاز ایک ہندو سادھو کی گائے سے ہوا، جس نے ایک مسلمان کو سینگ مار کر شدید زخمی کر دیا تھا، گائے پر ہاتھ اٹھانا تھا کہ پورا شہر دس فیصد مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔ بڑا قتل عام چھوٹے چھوٹے فسادات کا تسلسل تھا۔ 1960 ء سے 1969 ء تک گجرات کے شہری علاقوں میں 685 مسلم کش فسادات ہوئے تھے جبکہ ان 685 فسادات میں سے 578 صرف ایک سال یعنی 1969ء میں ہوئے۔اس حساب سے روزانہ تقریبا 2 فسادات برپا ہوئے۔ ان تمام فسادات میں الیکشن، انتخابی مفاد اور جمہوریت میں اکثریت کی آمریت کی لعنت کی وجہ سے سیکولر کانگریس کا جو روپ نظر آتا ہے وہ بی جے پی سے کسی بھی طور کم نہیں۔ کانگریس حکومت نے آر ایس ایس کا بھرپور ساتھ دیا اور آئندہ کے خونیں بھارت کی بنیاد رکھ دی۔ خشونت سنگھ ان فسادات کے پانچ ماہ بعد احمدآباد گئے اورانہوں نے ایک المناک مضمون تحریر کیا۔ یہ مضمون آج سے پچاس سال پہلے کا ہے۔ لیکن اس کی سطور میں جو درد ہے، بھارتی معاشرے میں مسلمانوں کی جو زبوں حالی اور بے بسی ہے،اس سے لگتا ہے کہ بھارت مسلمانوں کیلئے کبھی اچھا نہ تھا۔ خوشونت سنگھ نے پچاس سال پہلے لکھا '' میرا مقصد یہ دریافت کرنا نہ تھا کہ کیا ہوا۔ بلکہ یہ کیوں ہوا ہے؟ اور یہ کہ آج احمد آباد کے لوگ کیا سوچتے ہیں اور اگر آئندہ کوئی ایسا واقعہ دوبارہ ہوا جس نے شہرکی نوے فیصد ہندو اور دس فیصد مسلمان آبادی کے تعلقات کشیدہ کر دیئے تو وہ کیا کریں گے؟میں اپنی تفتیش کا آغاز جگن ناتھ مندر کے دورے سے کرتا ہوں۔۔۔۔مجھے توڑ پھوڑ کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ تسلی کرنے کے لئے میں نے ایک پروہت سے پوچھا۔ اس نے مجھے باہر دیکھنے کا کہا، میں باہر گیا اور دیکھا۔ داخلی دروازے کے اوپر کسی مہنت کی شبیہ کو ڈھانپنے والا شیشہ تھا۔ وہ شیشہ تین جگہ سے تڑخا ہوا تھا۔ میں برگد کے درخت تلے انگ بھبھوت رمائے منتر جاپتے سادھووں کے پاس پہنچا اور ان سے پوچھا کہ کیا کوئی نقصان ہوا ہے۔۔۔ انہوں نے نا پاک زبان میں اپنا آپ ظاہر کیا۔ میں بازار سے گزرتا ہوا اس درگاہ پر پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ فساد یہیں سے شروع ہوا تھا۔۔۔ مندر کی گائیوں کے ریوڑ نے عرس کیلئے جانے والے زائرین میں بھگدڑ مچادی تھی۔ درگاہ کا دروازہ بند تھا۔ اس پر کانسٹیبل پہرا دے رہے تھے۔ میں نے باہر بیٹھے ہوئے نگران سے پوچھا کہ کیا یہی وہ جگہ ہے؟ اس نے مشتبہ نظروں سے مجھے دیکھا۔ جواب دینے کے لیے اس نے بلغم فٹ پاتھ پر تھوکی۔ پولیس سب انسپکٹر نے مجھے گندی نظروں سے دیکھا۔ میں پولیس والوں کو پسند نہیں کرتا،پس میں وہاں سے کھسک لیا۔ میں سندھی بازار چلا گیا اس میں بہت سی چھوٹی چھوٹی دکانیں ہیں، جو پلائی ووڈ (PLYWOOD) اور ٹین کی چادروں سے بنائی گئی ہیں۔ قطار اندر قطار چھوٹی چھوٹی دکانوں میں کپڑے کی گانٹھیں پڑی تھیں اور رنگ رنگ کی ساڑھیاں لٹکی ہوئی تھیں۔ وہ جگہ انڈین آئل کے پٹرول بردار کی طرح آگ پکڑنے والی دکھائی دیتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ اس بازار کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ میں اس بات پر یقین کر سکتا تھا۔ تاہم مجھے نقصان کا کوئی نشان بھی نظر نہیں آیا۔ سندھی باہمت اور مہم جو نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ضرور اس کو دوبارہ تعمیر کر کے کاروبار دوبارہ شروع کر دیا ہوگا۔ میں نے اپنے اوپر ہلہ بول دینے والے دکانداروں میں سے ایک کی دعوت قبول کر لی کہ کچھ خریداری کیجئے۔۔۔ مجھے معلومات کے لئے دھوتی خریدنا پڑی۔ مجھے نفرت سننا پڑی۔ میں نے ایک سکوٹر کرائے پر لیا میٹر پر روغن سے لکھے ہوئے 786 کے عربی اعداد سے مجھے پتہ چل گیا کہ ڈرائیور کا عقیدہ کیا ہے۔ دوستانہ مکالمے کے لیے سکوٹر بہترین ذریعہ سفر نہیں ہے۔ میں نے چلا کر ''برے دنوں'' پر تبصرہ کیا۔ ڈرائیور پیچھے مڑا: '' تم مجھے کریدنا چاہتے ہو؟ میں جانتا ہوں تم کس کے ساتھ ہو!'' اس نے زبان سے تو یہ لفظ ادا نہیں کیے تھے تاہم اس کی غمناک آنکھیں یہی کہہ رہی تھیں۔ میں نے پان والوں، چنے والوں، پھل فروشوں سے پوچھنے کی کوشش کی۔ نتیجہ وہی ہے۔ اگر وہ بولیں تو جان لو کہ وہ ہندو ہیں۔ اگر وہ چپ رہیں تو سمجھ لو کہ وہ مسلمان ہیں۔ گفتگو اور خاموشی نفرت سے معمور ہیں۔۔۔میں خود کو اپنا مشن یاد دلاتا ہوں۔ یہ مردہ ماضی کو کریدنا نہیں ہے بلکہ جاری مزاج کا اندازہ لگانا اور یوں مستقبل کی پیش گوئی کرنا ہے۔ تاہم ستمبر کے گزرتے ہوئے کل ہمیشہ میرے ساتھ رہتے ہیں۔ میں صابر متی کے ساتھ ساتھ احمدآباد سے باہر آتا ہوں۔ میں ملبے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرتا ہوں۔ ایک آدھا ٹوٹا ہوا مینار اس ملبے کی حقیقت بتا دیتا ہے۔میں قبروں کے پاس سے گذرتا ہوں جن کے کتبے ٹوٹے ہوئے ہیں، میں ضبط کھو بیٹھا ہوں اور آنسو میری آنکھوں سے بہنے لگتے ہیں۔ وہ کیسے عفریت اور سؤر تھے جنہوں نے نہ تو عبادت گاہوں کو چھوڑا اور نہ قبروں کو؟'' یہ پچاس سال پہلے کا بھارت ہے جس کے گیت میرے ملک کا سیکولر دانشور مجھے سناتا رہا ہے۔لیکن آج بھارت میں کوئی ایک بھی خشونت سنگھ ایسا نہیں جو ایسی تحریر لکھے، چھپوائے اور پھر اسی معاشرے میں زندہ سلامت بچ جائے۔ اس تحریر کے چونتیس سال بعد خشونت سنگھ نے اپنی کتاب ''بھارت کا خاتمہ ''میں لکھا تھا '' اگر ہم خود کو ایک قوم بنائے رکھنے میں ناکام رہے تو ہم خود اس ناکامی کے ذمہ دار ہوں گے۔ اور ہم خود ہندوستان کی موت کے حقیقی مجرم ہوں گے۔ کاش وہ آج زندہ ہوتا اور موت کی جانب بڑھتے بھارت کا خود مشاہدہ کرتا۔