بی جے پی حکومت کے نفس ناطقہ سمجھے جانے والے صحافی ارنب گوسوامی کے واٹس ایپ پیغام لیک ہونے سے معلوم ہوا ہے کہ پلوامہ میں بھارت نے اپنے فوجی خود مروا کر پاکستان پر الزام لگایا۔ لیک پیغامات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان دشمن ارنب گوسوامی بالاکوٹ میں بھارتی طیاروں کی دراندازی، کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے خاتمے اور دیگر کئی اہم فیصلوں سے پہلے سے آگاہ تھا۔ دفتر خارجہ نے واٹس ایپ لیک سامنے آنے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ بھارت ایک بدمعاش ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا ہے اور پاکستان تمام شواہد محضر نامے کی صورت میں عالمی برادری کو فراہم کر چکا ہے۔ جس پر کسی طرح کی کارروائی کانہ ہونا افسوسناک ہے۔ پانچ دسمبر2020 کو اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کے انڈر سیکریٹری جنرل برائے انسداد دہشت گردی ولادیمیر ورونکوف سے ملاقات کی اور انہیں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سرگرمیوں میں بھارت کے ملوث ہونے سے متعلق محضر نامہ پیش کیا۔ اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے سربراہ نے اس محضر نامے کا مطالعہ کرنے کا وعدہ کیا ۔یہ محضر نامہ پاکستانی ایجنسیوں نے ملک میں دہشت گردی اور بغاوت پھیلانے کے لیے بھارت کی منظم مہم کی مکمل تحقیقات کے بعد تیار کیا ہے۔24 نومبر کو اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے ملاقات کرتے وقت محضر نامہ ان کے حوالے کیا تھا۔منیر اکرم نے بعدازاں ایک ورچوئل نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت، پاکستان اور خطے میں دہشت گردی کوسپانسر کررہا ہے اور پاکستانی معیشت کو مفلوج کرنا چاہتا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے سیکریٹری جنرل پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور تخریبی مہم روکنے پر مجبور کرنے میں کردار ادار کریں۔ یاد رہے کہ 14 نومبر کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران پاکستان میں بھارت کی جانب سے دہشتگردی اور دہشتگردوں کو مالی معاونت کے ثبوت پیش کیے اور اس حوالے سے ایک محضر نامہ جاری کیا تھا۔اس موقع پر بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ایجنٹوں کی آڈیو اور ویڈیو بھی پریس کانفرنس میں دکھائی گئی ۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ پاکستان کے پیش کیے گئے ثبوت بھارت کی جانب سے مالیاتی اور تخریبی مواد کی سطح پر متعدد دہشت گرد تنظیموں کی مدد کی عکاسی کرتے ہیں جس میں اقوام متحدہ کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی جماعت الاحرار، بی ایل اے اور ٹی ٹی پی شامل ہیں۔اکتوبر 2020 میںا مریکی جریدے فارن پالیسی نے بھارت کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی دہشت گردی میں بھارت سر فہرست ہے اور ہندوستان کے دہشت گرد گروپوں کے نیٹ ورکس سے روابط، سر پرستی اور ملوث ہونے کے واضح ثبوت ہیں۔امریکی جریدے فارن پالیسی نے داعش اور بھارتی شہریوں کے روابط دْنیا کے سامنے رکھتے ہوئے اس گٹھ جوڑ کو عالمی اور علاقائی خطرہ قرار دیا ۔جریدے نے بتایا کہ داعش کے جلال آباد اور افغانستان میںحملے نے اس اْبھرتے خطرے کو بڑھا وا دیا، مختلف ممالک اور علاقوں میں دہشت گردی کے حملوں اور نئی لہر میں بھارتی شہریوں کی شمولیت ایک نیا موڑ لے رہی ہے، بھارت میں وزیر اعظم مْودی نے ہندو نیشنل ازم کو فروغ دیا ہے جس سے انتہا پسندی بڑھی ہے، اس کے نتیجے میں خطرہ ہے کہ زیادہ بھارتی شہری علاقائی اور عالمی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہوجائیں۔رپورٹ کے مطابق داعش کی دہشت گرد کارروائیوں خاص طور پر ہزارہ افراد کا قتل،2019 میں سری لنکا میں ایسٹر کے موقع پر بم دھماکے، 2017 میں نئے سال کے موقع پر ترکی میں کلب پر حملہ اور 2017 میں نیو یارک اور اسٹاک ہوم حملے نے دْنیا کو ششدر کر دیا، ان تمام حملوں کی پلاننگ میں بھارتی شہریوں کا ہاتھ انتہائی پریشان کْن ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے خطے میں بدامنی، دہشت گردی اور کشیدگی پھیلانے کی بھارتی کوششوں کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کے باوجود بھارت کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی تین مختلف کمیٹیوں کی دو دو سال کے لیے سربراہی کا موقع دیا گیا۔ ان کمیٹیوں میں طالبان پر پابندیوں کی کمیٹی، انسداد دہشت گردی کمیٹی اور لیبیا پر پابندیوں سے متعلق کمیٹی شامل ہیں۔ سیکرٹری جنرل، امریکہ، فرانس، برطانیہ، روس، چین اور یورپی یونین کے پاس وہ تمام شواہد پہنچ چکے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت بطور ریاست دہشت گردانہ سرگرمیوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔حال ہی میں ڈس انفولیب کی رپورٹ میں ایسے انکشافات کیے گئے جن سے معلوم ہوا کہ بھارتی حکومت کی ایما پر ایک بھارتی کمپنی سری واستوگروپ نے پونے تین سو مختلف میڈیا اور این جی اوز کا نیٹ ورک بنا رکھا ہے جو پاکستان کے متعلق جھوٹے پروپیگنڈہ میں مصروف ہے۔ یہ تنظیمیں اور ویب پورٹل پوری دنیا میں پاکستان کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ ارنب گوسوامی مودی حکومت کا غیر اعلانیہ ترجمان ہے۔ اس کے واٹس ایپ اکائونٹ سے سامنے آنے والے حقائق غیر معمولی ہیں۔ پاکستان کو اقوام متحدہ اور یورپی یونین سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی سکیورٹی کونسل کو اپنا کردار ادا کرنے سے متعلق یاد دہانی میں بتانا چاہیے کہ بھارت کے خلاف عالمی برادری نے ذمہ دارانہ کردار ادا نہ کیا تو خطہ ایک سنگین سکیورٹی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔