کشمیرپرجس طرح عالمی ذرائع ابلاغ فوکس کئے ہوئے ہے، جس طرح یورپی پارلیمنٹ میں یہ موضوع اٹھایا گیا ہے ،جس پیمانے پردنیاکے ہیومن رائیٹش کمشنز کی رپورٹس آ رہی ہیں اور کشمیر کے اندر سے بھی مقامی ہیومن رائٹس کمیشن کی طرف سے رپورٹس آ رہی ہیں، اس سے یقینادنیاکے فہمیدہ طبقوں میںبھارت کی ملٹری اور سیاسی قیادت اخلاقی اعتبارکھوچکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کشمیرسے متعلق وہ کوئی بات سننانہیںچاہتااوروہ ہراس ملک اورہراس شخصیت کے بیان اوراس کے ریمارکس کومستردکرتاہے جوکشمیراورکشمیریوں کی صورتحال پربھارتی جبرکی مذمت کرتاہے۔ سوموار17فروری 2020ء کو بھارتی حکام نے دلی پہنچنے پر لیبر پارٹی کی رکن پارلیمان ڈیبی ابراہمز کا ویزا منسوخ کر کے انھیں ملک بدر کر دیا تھا۔ڈیبی ابراہمز غیر سرکاری گروپ اے پی پی جی’’آل پارٹیز پالیمینٹیرین گروپ فار کشمیر‘‘کی سربراہ ہیں۔ وہ گزشتہ برس کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے انڈیا کے اس اقدام پر تنقید اور اپنے خدشات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ڈیبی ابراہمز کے مطابق دلی کے اندرا گاندھی ہوائی اڈے پہنچنے پر ان کا ای ویزا منسوخ کر دیا گیا۔ یہ ویزا انھیں گزشتہ اکتوبر میں جاری کیا گیا تھا اور اس کی مدت اکتوبر 2020ء تک تھی۔اولڈہم ایسٹ اور سیڈلورتھ کے حلقے سے منتخب ہونے والی رکن پارلیمان ذاتی دورے پر انڈیا گئی تھیں۔ امارات کی پرواز سے سوموار کو دلی پہنچنے کے بعد انہیں بتایا گیا کہ ان کا ویزا منسوخ کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا میں اپنے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیے جانے کو فراموش کرنے کے لیے تیار ہوں اور امید کرتی ہوں کہ وہ مجھے میرے خاندان اور دوستوں سے ملنے دیں گے۔ڈیبی ابراہمز کا کہنا تھا ایک اہلکار نے میرا پاسپورٹ لیا اور دس منٹ کے لیے غائب ہو گیا، جب وہ واپس آیا تو بہت بدتمیزی سے پیش آیا اور چلا کر بولا کہ میں اس کے ساتھ چلوں۔ان کے مطابق انہیں ایئرپورٹ کے اس حصے میں لے جایا گیا جہاں ملک بدر (ڈیپورٹ) کیے جانے والے لوگوں کو رکھا جاتا ہے۔ڈیبی ابراہمز کا مزید کہنا تھا مختلف امیگریشن حکام کے میرے پاس آنے کے بعد میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ میرا ویزا کو منسوخ کیوں کیا گیا ہے اور کیا مجھے’’ ویزا آن ارائیول‘‘ملک میں پہنچنے پر دیا جانے والا ویزا دیا جا سکتا ہے تو بتایا جائے، لیکن کسی کو اس بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔گزشتہ برس ڈیبی ابراہمز نے برطانوی وزیر خارجہ کو لکھا تھا کہ پارلیمانی گروپ کو شدید خدشات ہیں کہ متنازعہ علاقے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا گیا ہے جو جموں و کشمیر کے لوگوں کیساتھ ظلم وجبرجاری رکھنے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس سے قبل انڈیا نے ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردوان کے کشمیر سے متعلق بیان کو انڈیا کے اندرونی معاملے میں مداخلت سے تعبیر کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔صدر اردوان نے جمعہ14 فروری کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان سے ترکی کی قربت کا اظہار کرتے ہوئے کشمیر سے متعلق پاکستان کے موقف کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا۔ صدر اردوان کے بیان پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دلی میں ترکی کے سفیر سے اس بیان پر اپنی سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ایک بیان میں کہا کہ صدر اردوان کا بیان نہ تاریخی فہم کا عکاس ہے اور نہ ہی یہ سفارتی ضابطوں کے دائرے میں آتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر سے متعلق ان کے بیان میں ماضی کے حقائق کو مسخ کر کے مستقبل کے ایک تنگ نظریے کی توجیہہ دی گئی ہے۔رویش کمار نے صدر اردوان کے بیان کو مکمل طور پرناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'ان کا یہ بیان دوسرے ملکوں میں مداخلت کرنے کے سلسلے کی کڑی ہے۔ ہم خاص طور سے سرحد پار سے پاکستان کے ذریعے کی جانے والی دہشت گردی کو جائز ٹھہرانے کی ترکی کی کوششوں کو مسترد کرتے ہیں۔صدر اردوان نے کہا تھا کہ اپنے پاکستانی اور انڈین پڑوسیوں کے ساتھ کشمیریوں کے ایک محفوظ مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کو ٹکرا ئوسے نہیں بلکہ انصاف اور مساوات کی بنیاد پر بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔صدر اردوان نے خطاب میں کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود کشمیر اب بھی محصور ہے اور اسی لاکھ کشمیری وہاں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ باہر نہیں نکل سکتے۔بھارتی حکام نے حسب سابق کشمیر سے متعلق ترکی کے بیانات کو پوری طرح سے یہ کہہ کر مستر کر دیا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور کسی بھی ملک کو انڈیا کے اندرونی معاملات مں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ہندتوا کی پالیسی 1984ء سے بی جے پی کے منشور میں شامل تھی اور نریندر مودی کی بھاری اکثریت سے فتح سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ ہندتوا اور قوم پرستی کے لیے بھارتی ہندو عوام میں بہت حمایت پائی جاتی ہے۔مودی کے انتہائی معتمداوربی جے پی کے مرکزی لیڈر امت شاہ ایک عرصے سے اس کا برملا اظہار کرتے رہے تھے کہ ان کی جماعت دوباہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے مشن پر پوری شد و مد کے ساتھ عمل کرے گی۔بی جے پی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کی بعد کی صورت حال نے اس امرپرمہرتصدیق ثبت کررہی ہے کہ بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعداس نے اپنے منشور کو عملی جامہ پہنایا۔لیکن کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت قدم قدم سے اتررہی ہے اور مودی نے وعدہ کیا تھا کہ معیشت پانچ ٹرلین کی ہو جائے گی، دس ملین نوکریاں ہوں گی لیکن پھر یہ خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ شرح نمو صرف پانچ فیصد رہ گئی ہے۔تاہم اس کے باوجودوہ کشمیرکے حوالے سے ایسے اقدام کررہاہے کہ جس سے یہ خطہ جنگ کے دھانے پر آسکتاہے ۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ آخربھارت کب تک حقائق سے آنکھیں چراتارہے گا؟؟؟