دیومالائی کہانیوں اور قصوں کی غیرمستند تاریخ کے مقابل میں ہندوستان کی تاریخ کا کھوج لگائیں تو اتنی بڑی سرزمین پر لاتعداد راجے اپنی اپنی علیحدہ سلطنتوں پر آزادانہ طور پر حکمران تھے اور کسی ایک متحدہ ہندوستان کا سراغ نہیں ملتا۔ شمالی ہندوستان جو بنگال کی سرحدوں سے پنجاب کی سرحدوں تک پھیلا ہوا ہے اس حصے پر پہلا حکمران چندرگپت موریہ تھا جو لاتعداد راجواڑوں کے اتحاد پر شامل ایک حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ 340 قبل مسیح میں پیدا ہونے والا چندر گپت 322 قبل مسیح سے 298 قبل مسیح تک چوبیس سال حکمران رہا۔ آج کا بھارت اس حکمران کو اکھنڈ بھارت کی علامت سمجھتا ہے اور اس کا بت برلا مندر دلی کے علاوہ جا بجا نظر آتا ہے۔ یہ شخص جین مت کا پجاری تھا جو برصغیر میں ہندومت کے نسل پرستانہ سماج کے خلاف پہلی بلند آواز تھی۔ اسی مذہب کے ماننے والوں کے بارے میں رومیلا تھاپر نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ انہوں نے سومنات کے مندر کو تباہ کرکے اس پر مہا ویر کا جھنڈا لہرایا تھا اور جب محمود غزنوی نے سومنات پر حملہ کیا تو وہاں سرے سے کوئی مندر موجود ہی نہ تھا۔ لیکن بعد میں آنے والے تاریخ دانوں نے محمود غزنوی اور مسلمانوں سے نفرت بڑھانے کے لیے یہ کہانی گھڑی جسے مسلمان مورٔخین نے بھی بت شکن کا کردار تراشنے کے لیے اپنا لیا۔ اس مندر کی تباہی چندرگپت موریا کے دور میں ہوئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کا وہ حصہ جسے آج کل پاکستان کہتے ہیں اس پر سکندر کے نائب سلوکس نکوٹار کی حکومت تھی۔ چندر گپت آج کے شہر پٹنہ کے مقام پر آباد شہر ’’پاٹلی پتر‘‘ میں دربار سجائے ہوئے تھا۔ سلوکس نکوٹار کا سفیر میگھستیزز اس شہر کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہ نومیل چوڑا اور ڈیڑھ میل لمبا تھا جس کے اردگرد لکڑی کی فصیل تھی جس کے چونسٹھ دروازے تھے۔ چندر گپت جب شکار پر جاتا تو اس کے ساتھ عورتوں کی ایک فوج ہوتی جسے دیگر ملکوں سے خرید کر لایا گیا ہوتا تھا۔ محل کے ستونوں پر سونے کا پانی چڑھا ہوا تھا اور درباری رفع حاجت کے لیے بھی سونے کے آفتابے (لوٹے) استعمال کرتے۔ شاہی گزرگاہ کے دونوں جانب رسی بندھی ہوئی تھی اور اس رسی کو عبور کرنے والے کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ چندرگپت ایران کی کیانی سلطنت سے بہت متاثر تھا کیونکہ اس نے اپنی جوانی کے دن سندھ اور پنجاب کے ان علاقوں میں ایک بھگوڑے کی حیثیت سے گزارے تھے جن پر ایرانی حکومتوں کی وجہ سے بہت سے اثرات مرتب ہوئے تھے۔ اس کے دربار کی ترتیب بھی ویسی ہی تھی اور رسومات بھی ایرانیوں سے متاثر تھیں۔ مثلاً راجہ کی پیدائش کے دنوں کو ایک بڑے تہوار کے طور پر منایا جاتا، امراء تحائف پیش کرتے، لوگ خوشی مناتے، چندرگپت بڑے اہتمام سے سر کے بال دھوتا اورمالش کرواتا۔ یہ بنیادی طور پر ایرانی طرز پر قائم ایک فوجی حکومت تھی۔ اس کے چھ لاکھ پیادہ فوجی تھے جبکہ تیس ہزار گھڑسوار اور نو ہزار ہاتھی تھے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا تھی اور جھوٹی گواہی دینے پر ہاتھ اور پائوں دونوں کاٹ دیئے جاتے تھے۔ لیکن اس طرز حکمرانی اور وسیع سلطنت کے پیچھے اس کا ایک مشیر خاص تھا جس کا علم آج بھی بھارت میں حکمران اپنے لیے مشعل راہ سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے دور کا میکاولی تھا جس نے بادشاہوں کی حکمرانی کے گر پر ایک کتاب لکھی جسے ارتھ شاستر کہتے ہیں۔ یہ شخص 370 مسیح میں پیدا ہوا جس کا نام وشنو گپت تھا لیکن دانائی کی وجہ سے راجہ اسے ’’چانکیہ‘‘ کہہ کر پکارتا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت حاسد تھا۔ حسد کو سنسکرت میں کٹل کہتے ہیں، اس لیے اسے کوٹلیہ بھی کہا جاتا تھا۔ وہ چندر گپت کا اتالیق تھا لیکن بعد میں اس نے اسے اپنا وزیراعظم بنا دیا۔ چانکیہ کیونکہ ہندو تھا اور ذات کا برہمن تھا، اس لیے اس میں ذات پات کا تعصب اور ہندو سماج کی رسم و رواج کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ اس کی کتاب ارتھ شاستر اس وقت کے ہندوستان کی سیاست، صنعت و حرفت، رسم و رواج، قوانین، توہمات، فوجی مہمات اور علوم و فنون پر سند کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ کتاب یوں تو قصے کہانیوں میں پائی جاتی تھی مگر انگریز حکمرانوں کے محکمہ آثار قدیمہ نے 1904ء میں اس کا اصل سنسکرت مخطوطہ ڈھونڈ نکالا۔ 1905ء میں اسے کتابی شکل میں شائع کیا اور 1909ء میں اس کا انگریزی ترجمہ کر کے بار بار اسے شائع کیا۔ اس کتاب کو آج کے بھارت کی طرز حکمرانی اور سیاست کی وید یا بائبل کہا جاتا ہے۔ بھارت کے اس خطے میں عزائم اور ایران، افغانستان، سری لنکا، برما، نیپال اور بنگلہ دیش سے تعلقات کے حوالے سے اس کتاب میں دیئے گئے اصولوں کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اس لیے آج کا جدید بھارت انہیں خارجہ پالیسی اور داخلی استحکام میں مشعل راہ سمجھتا ہے۔ چانکیہ کے نزدیک: 1۔ اپنے پڑوسی ممالک کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھو اور ان کے بارے میں چوکنا رہو۔ 2۔ ہر اس ملک سے دوستانہ تعلقات استوار کرو جو تمہارے دشمن کا پڑوسی ہو۔ 3۔ دوسرے ملکوں سے دوستی کی بنیاد ہمیشہ فائدے کے حصول کے لیے ہو۔ 4۔ اپنے دل میں طاقت بڑھانے اور ملک وسیع کرنے کی خواہش زندہ رکھو۔ 5۔ ہر لمحہ اس جنگ کے لیے تیار رہو جس میں تمام تدابیر استعمال کر سکو۔ 6۔ جنگ کے دوران بے رحم اور سنگ دل ہو جائو۔ 7۔ دشمن پر خوف، نفسیاتی جنگ، تخریب کاری مسلط کرو اور ان کے خلاف مسلسل منفی پراپیگنڈہ کرتے رہو۔ 8۔ دشمن ملک میں اپنے ایجنٹ پیدا کرو جو آپ کے منصوبوں پر عمل کروائیں۔ 9۔ دشمن ریاست کی معاشی ناکہ بندی کرنے کے لیے رشوت اور دیگر طریقے استعمال کرو۔ 10۔ غداروں اور دشمن کے ہمدردوں کو عبرت کا نشانہ بنائو۔ 11۔ جب بھی تم طاقت کی پوزیشن میں ہو اور دشمن کمزور اور ابتری کا شکار ہو تو اس پر حملہ کردو، خواہ تمہارے درمیان امن کا معاہدہ کیوں نہ ہو چکا ہو۔ 12۔ اپنے دشمن کو تباہ کرنے کے لیے ہر طرح کا ہتھیار استعمال کرنا جائز ہے۔ ان تمام مقاصد کو اپنی نظر میں رکھ کر بھارت کی موجودہ حکومتوں کی اس خطے میں خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں گے تو آپ کے سامنے حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوتی چلی جائے گی۔ افغانستان سے گزشتہ ستر سال سے تعلقات بنانے کی کیا وجہ ہے، حالانکہ وہاں کوئی معاشی مفاد بھی وابستہ نہیں۔ انقلاب ایران کے بعد گزشتہ چالیس سالوں سے بھارت ایران دوستی اس قدر مثالی ہے کہ ایرانی تہذیب تک اس سے متاثر ہو چکی ہے۔ لوگ بھارتی اداکاروں اور اداکارائوں کو اپنے ہیروز سے زیادہ پہنچانتے ہیں۔ چانکیہ کے اصولوں پرمبنی بھارت کی افغانستان اور ایران سے دوستی اور سرمایہ کاری کا بدترین انجام ہونے کو ہے۔ اس انجام سے پہلے یا بعد میں یہ تینوں ملک کیا کرسکتے ہیں، تینوں کی تاریخ کی روشنی میں بات ہوگی۔ (جاری)