حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بھارت بیک وقت 4 عسکری محاذوں پر سرگرم ہے۔ سب سے پہلا محاذ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کھول رکھا ہے جہاں ہزاروں فوجی مظلوم کشمیریوں کے قتلِ عام پر کمربستہ ہیں۔دوسری جانب بھارت پاکستان کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ آئے روز لائن آف کنٹرول پر کشیدگی، سیز فائر کی خلاف ورزی کرکے پاک بھارت جنگ کے شعلے بھڑکائے جا رہے ہیں ۔ابھی حال ہی میں لداخ میں بھارت چین چپقلش سے تیسرا عسکری محاذ کھلا اور چوتھی جانب بھارت نے نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعہ بھی گلے کا ہار بنا لیا ہے۔ بھارت اور نیپال کے درمیان وجہ کشیدگی بھی ایک سڑک ہے جو بھارت نے نیپالی علاقے میں کھولی ہے۔ یہ رابطہ سڑک بھارتی ریاست اترکھنڈ کے علاقہ دھرچلا کو چین کے ساتھ بھارت کی سرحدلائن آف ایکچوئل کنٹرول کے قریب لیپولیکھ پاس سے ملاتی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ یہ سڑک کیلاش من سرورارجانے والے یاتریوںکو سہولت فراہم کرے گی۔ لیپولیکھ پاس کے جنوبی طرف کالاپانی نامی علاقہ بھارت اورنیپال کے درمیان متنازعہ ہے۔ لیپولیکھ پاس چین کے ساتھ سرحد لائن آف ایکچوئل کنٹرول پرواقع ہے جو سٹریٹجک اہمیت کاعلاقہ ہے۔ نئی سڑک کھولنے کے بھارتی اقدام کا مقصد چینیوں کی نقل وحرکت کی نگرانی کرنا ہے۔1816ء میں برطانوی ہندوستان اورنیپال کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت کالاپانی سے گزرنے والے دریائے مکھیلی کو دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان سرحد قراردیاگیاہے۔ تاہم دریائے مکھیلی کے کئی معاون دریا اسی مقام پراس سے ملتے ہیں۔ اس وجہ سے بھارت یہ دعویٰ کرتاہے کہ دریائے مکھیلی کاآغاز کالاپانی سے ہوتا ہے لیکن نیپال کادعویٰ ہے کہ دریائے مکھیلی کاآغاز لیپولیکھ پاس سے ہوتاہے جو اس کے بہت سے معاون دریائوں کا منبع ہے۔ اس سڑک کی تعمیر پر بھارتی آرمی چیف نے چین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اترکھنڈ میں تعمیر کی جانے والی نئی سڑک پر نیپال کے اعتراضات کسی کی ایما پر ہیں۔نیپال کے نائب وزیراعظم اور وزیر دفاع ایشور پوکھرل نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالا پانی کے تنازعے پر بھارتی فوج کے سربراہ کے بیان سے نیپالی گورکھوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ ایک فوجی سربراہ کو سیاسی نوعیت کے بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔ بھارتی آرمی چیف نے نیپال کی توہین کی ہے۔ بھارتی فوجی سربراہ کے بیان سے ان گورکھا فوجیوں کے احساسات کو بھی ٹھیس پہنچی جنہوں نے بھارت کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بھارت نے ایک نقشے میں کالاپانی کا علاقہ بھارتی حدود میں دکھایا گیا تھا۔ نیپالی وزیر اعظم کے پی اولی کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ کالا پانی نیپال، بھارت اور تبت کے مابین ایک سہہ فریقی مسئلہ ہے اور بھارت کو یہاں نہ تعمیرات نہیں کرنی چاہیئں بلکہ فوری طور پر وہاں سے اپنی فوج ہٹا لینی چاہیے۔ کالا پانی نیپال کا حصہ ہے۔ہم اپنی ایک انچ زمین بھی کسی کے قبضے میں نہیں رہنے دیں گے۔بھارت یہاں سے فوری طور پر نکلے۔ یہ پہلا موقع ہے جب نیپال کے وزیر اعظم نے بھارت کے نئے سرکاری نقشے سے پیدا ہونے والے تنازعے پر عوامی طور پر اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ بھارتی نئے نقشے میں کالا پانی کو اپنے علاقے کے طور پر پیش کیا ہے۔ کالا پانی نیپال کے مغربی سرے پر واقع ہے۔ نیپالی وزیراعظم نے نیا نقشہ جاری کیا جس میں کالا پانی، لمپیا دھورا اور لیپو لیکھ کے علاقے کو نیپال کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ بھارت کا اصل مسئلہ نیپال، چین کی بڑھتی ہوئی دوستی ہے۔خطے میں اپنی چودھراہٹ جمانے کے متمنی بھارت کو اپنے عزائم کی تکمیل کی راہ میں پہلے پاک چین دوستی کھٹکتی تھی لیکن اب وہ چین کے نیپال سے تعلقات پر بھی اعتراضات اٹھانے لگا ہے۔ نیپال اور چین کی فوج نے پہلی مرتبہ مشترکہ مشقوں کا پروگرام بنایا جس سے قدرتی آفت یا کسی دہشتگرد حملے سے نمٹنے کے لیے نیپال کی فوج کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔لیکن حسب معمول بھارت ان فوجی مشقوں کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے لگا ہے۔ نئی دلی سرکار ان فوجی مشقوں کو بہت اہمیت دے رہی ہے اور دونوں ممالک کے بڑھتے فوجی تعاون کی نوعیت کا جائزہ لے رہی ہے۔ یہاں تک کہ نئی دلی میں تعینات نیپالی سفیرکو کہنا پڑاکہ ان مشقوں کے نتیجے میں ہمارے دوطرفہ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ نیپال اور بھا رت کے درمیا ن نیپا لی علاقے پر طویل عرصہ سے ایک جنگ جاری ہے۔نیپال اور بھارت کے درمیان سرحد1,808کلو میٹر طو یل ہے اور نیپال کے 26اضلاع انڈین سرحد سے ملتے ہیں۔ درحقیقت بھارت کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر لوگوں نے نیپال کے علاقے میں قائم جنگلات کا صفایا کرکے وہاں پر رہائش اختیار کرلی اور تاحا ل یہ جنگ جاری ہے۔ اگر نیپال نے گریٹر نیپال کے نقطہ نظر کو درست ثابت کرنا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ نیپال کی آنے والی نسلیں اپنے کھوئے ہوئے علاقے دوبارہ واپس حاصل کریں جو کل نیپال کا ایک چوتھائی حصہ ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح چائنا نے ہانگ کانگ برطانیہ سے حاصل کیا ہے ۔ اس سے قبل نیپالی حکومت نے اس مسئلے کو اس طرح سے طے نہیں کیا جس طرح سے اس کو کیا جانا چاہیے تھا۔ فارن افیئرز کی کمیٹی نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ سستا اور کالا پانی کے علاوہ باقی تمام بارڈرز کے مسائل حل ہوچکے ہیں لیکن ایسی بہت سی جگہیں ہیں جن پر بھارت نے قبضہ کیا ہے۔ اگرچہ دیر سے ہی سہی‘ نیپالی حکومت اور پارلیمنٹ معاملے کی سنگینی سے آگاہ ہوتے جارہے ہیں۔ جس کا اندازہ ارکا ن پار لیمنٹ کے سستا کے علاقے کے حالیہ دورے سے لگایا جاسکتا ہے جبکہ غیرملکی تعلقاتی کمیٹی بھی اس امر پر گہری نگاہ مرتکز کئے ہوئے ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر نیپالی وزیراعظم اس مسئلے پر سنجیدگی سے کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ مسئلہ حل نہ ہو۔ نیپال کی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر بھارتی عناصر کی مذموم سرگرمیوں کی روک تھام کرے کیونکہ بھارت نیپال اور دوسرے مسلم ملکوں کی زمینوں پر قبضے کے خواب دیکھ رہا ہے اور ان سے تعلقات خراب کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔