دوہزار اُنیس کے لوک سبھا کے انتخابات نے مسلمانوں کی سیاسی پسماندگی کو مزید واضح کردیا ہے۔پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میںمسلمانوںکے چند نمائندے موجودہیں۔یہ عمل مسلمانوںکی سماجی ومعاشی پسماندگی کے ساتھ بدل رہا ہے۔ 2005ء میں سچر کمیٹی کی ترتیب دی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ،بھارتی مسلمانوں کی حالت زار دلت برادری اور’’اُو،بی ،سی‘‘یعنی دیگر پسماندہ طبقات سے بھی گئی گزری ہے۔ یہاں سچر کمیٹی کی رپورٹ اور اوبی سی کی اصلاح پر نظر ڈالتے چلیں:(سچر کمیٹی 2005ء میں سابقہ بھارتی وزیرِ اعظم منموہن سنگھ نے قائم کی تاکہ مسلم کمیونٹی کی تازہ ترین سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت کا جائزہ لے کر اس پر رپورٹ پیش کر سکے۔ کمیٹی کی سربراہی دلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر سچر کو دی گئی اور اس میں چھ اور ارکان بھی شامل تھے۔30 نومبر 2006 ء کو اپنے قیام کے بیس ماہ بعد کمیٹی نے 403 صفحات پر مشتمل رپورٹ انڈین ایوانِ زیریں لوک سبھا میں پیش کی۔ اس رپورٹ میں مسلم کمیونٹی کو پیش مسائل کو اجاگر کیا گیا اور بتایا گیا کہ عوامی سطح پر ان کی نمائندگی کیسی ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ 2100 ء تک انڈیا کی کل آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 17 سے 21 فیصد ہی رہے گا۔ انڈین مسلمانوں کی پسماندگی پر یہ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ تھی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اگرچہ انڈین مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کا 14 فیصد ہے مگر انڈین بیوروکریسی میں ان کی نمائندگی محض اڑھائی فیصد ہے۔سچر کمیٹی نے یہ بھی واضح کیا کہ مسلمانوں کی حالت نچلی ذاتوں اور نچلے قبائل سے بھی گئی گزری تھی) (دیگر پسماندہ طبقات یا او بی سی Other Backward Class،اجتماعی اصطلاح ہے جسے بھارتی حکومت ان ذاتوں کے لیے مخصوص کر چکی ہے جو سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پیچھے ہیں۔ بھارت کی 52% آبادی دیگر پسماندہ طبقات پر مشتمل ہے۔ بھارتی دستور میں او بی سی کو ’’سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ طبقات‘‘ قرار دیا گیا ہے) یہاں حالیہ’’ این ایس ایس او ‘‘کی رپورٹ 2018 اور این ایس ایس۔ای یو ایس 2011.12 ء سے یہ دیکھتے ہیں کہ بھارت میں دوسرے سماجی طبقات کے مقابلے میں مسلم نوجوانوں کی سماجی و معاشی حیثیت کیا ہے؟ہم یہاں دوہزار گیارہ کی مردم شماری کے مطابق اُن تیرہ بھارتی ریاستوں کا مجموعہ لیتے ہیں ،جوایک سوستر ملین مسلمانوں میںنواسی فیصد کا احاطہ کرتا ہے۔ہم اس کو تین حوالوں سے دیکھتے ہیں:ہم 21 سے29 سال کے پڑھے لکھے مسلم نوجوانوںکا تناسب دیکھتے ہیں جو اپنی گریجوایشن مکمل کرچکے ہیں… ہم مجموعی طورپر 15سے 24سال کے نوجوانوں کا تعلیمی اداروں میں تناسب دیکھتے ہیں اور پھر اُس میں مسلم نوجوانوں کا تناسب دیکھتے ہیں جو تعلیم، روزگار اور کسی ٹریننگ میں نہیں آتے ہیں…یہ عوامل اس پہلو کی عکاسی کرتے ہیں کہ نوجوانوں کے لیے تعلیمی تیاری کس حد تک ہے۔جو نوجوان گریجوایشن مکمل کرچکے ہیں ،یعنی فارغ التحصیل ہیں ،کے تناسب کو ہم’’ تعلیمی حصول‘‘کہہ سکتے ہیں۔2017.18ء کے درمیان مسلم نوجوان 14فیصد،جبکہ دلت 18فیصد،25فیصد ہندو،اُو،بی،سی (دیگر پسماندہ طبقات) اور 37فیصداُونچی ذات کے ہندو نوجوان تھے۔اس میں مسلم نوجوانوں کاتناسب خود ملاحظہ کرلیں۔یہاں نچلی ذات کے طبقات اور مسلم نوجوانوں کے مابین چارفیصدکا فرق ہے۔اگر ہم 2011.12ء کی بات کریں تو نچلی ذات کے طبقات کے نوجوان ،مسلم نوجوانوں سے محض ایک فیصد آگے تھے۔یعنی محض چھ برس کے قلیل عرصہ میں یہ فرق چارفیصد تک پہنچ گیا ہے۔ بھارتی سرزمین میں مسلم نوجوان بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔2017.18ء ہریانہ میں مسلم نوجوانوں کے لیے تعلیمی حصول تین فیصد کے کم ترین درجے پر تھا۔جبکہ راجستھان میں یہ تناسب سات فیصد رہااور اُترپردیش میں یہ گیارہ فیصد رہا۔مدھیہ پردیش شمالی انڈیا کی ایک اکلوتی ریاست ہے ،جہاں مسلم نوجوان تعلیمی میدان میں بہتر ہیں۔یہاں ان کی تعلیمی حصول کا تناسب سترہ فیصد ہے۔ان تمام ریاستوں میں ماسوا دلتوں کے باقی سب طبقات مسلم سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔مشرقی انڈیا کی ریاست بہار میں مسلم نوجوانوں کے تعلیمی حصول کا تناسب آٹھ فیصد ہے جبکہ نچلی ذات کے طبقات کا تناسب سات فیصد ہے،مغربی بنگال میں آٹھ فیصد ہے جبکہ نچلی ذات کے طبقات کا تناسب یہاں نو فیصد ہے اور آسام میں سات فیصد ہے جبکہ نچلی ذات کے طبقات کا تناسب یہاں آٹھ فیصد ہے۔ مسلم او ر نچلی ذات کے طبقات کے مابین گذشتہ چھ سال سے فرق کا تناسب کم ہورہا ہے۔ 36 فیصد گریجویٹ مسلم نوجوانوں کے ساتھ ، تامل ناڈو ملک میں برادری کے حوالے سے تعلیمی حصول کی متعین کردہ مقدار میں سرفہرست ہے۔کیرالہ میں 28فیصد ،اندھرپردیش میں 21فیصداور کرناٹک میں18فیصد مسلم نوجوان گریجوایٹ ہیں۔جبکہ تامل ناڈو میں مسلم برادری نچلی ذات کے طبقات کے ساتھ سخت مقابلہ ہے۔ واضح رہے کہ مسلمانوں کی پسماندگی کا آغاز کئی سال قبل ہوا تھا،تاہم حالیہ عرصہ میں پسماندگی کار جحان تیزی سے بڑھا ہے۔جیسا کہ سام ایشر ایٹ نے اپنی حالیہ تحقیق میں بتایا ہے ، ہندوستان میں بین النوع تحرک:نئے طریقوں اور انتظامی اعدادوشمار سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو تعلیمی حصول سے روکا جارہا ہے اور تعلیمی نظام میں چھوٹی ذات کے طبقات کو شامل کیاجارہا ہے۔درحقیقت اس پریشان کن عمل کو مسلمانوں کے سیاسی پسماندگی کے تناظر میں دیکھنے کے لیے مزید مطالعات کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ :دی انڈین ایکسپریس ترجمہ ۔احمد اعجاز )