شاید جنرل سنگھ کے حکومت کے ساتھ اختلافات چیف آف ڈیفنس کے عہدے کی تقرری پر اثر انداز نہیں ہوتے، مگر جنوری 2012ء کی ایک دھند بھری رات کو خفیہ اداروں نے وزیرا عظم کو جگا کر بتایا کہ فوج کی اسٹرائک کور کی چند یونٹیںمتھرا، آگرہ، حصار اور بھرت پور سے کوچ کرکے دہلی کی طرف رواں ہیں۔ وزیرا عظم نے جب وزیر دفاع کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ فوج کی اس حرکت کے بارے میں ان کو کوئی علم نہیں ہے۔ دہلی یا اسکے اطراف میں فوجی نقل و حرکت کیلئے وزارت دفاع سے منظوری لینی پڑتی ہے۔ فوج کے ملٹری آپریشنز کے نائب سربراہ کو رات کے اندھیرے میں طلب کیا گیا۔ تو اس نے وضاحت دی کہ فوج کی اسٹرائک کور دھند میں کسی ایمرجنسی کی صورت میں دہلی تک پہنچنے کی مشق کر رہی ہے اور اس کا دورانیہ پانچ گھنٹے سے کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مگر آخر وزارت دفاع کو کیوں خبر نہیں کی گئی؟ فوجی افسر کے پاس اسکا کوئی جواب نہیں تھا۔ سویلین انتظامیہ تب تک اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ جنرل وی کے سنگھ کے ارادے نیک نہیں ہیں۔ وہ من موہن سنگھ حکومت کو ڈرانے کا کام کر رہے ہیں، تاکہ اپنی ایکسٹنشن اور دیگر مراعات کے حصول کے لئے ان پر دبائو بنا کر رکھیں۔ اسی دوران جنرل سنگھ کی طرف سے بنائے گئے ایک خفیہ ونگ ٹیکنیکل ڈویژن سروس یعنی ٹی ڈی ایس پر انٹیلی جنس بیورو نے تفتیش شروع کی تھی۔ اسکے سربراہ کرنل ہنی بخشی کو حراست میں لیا گیا تھا۔ یہ ڈویژن کئی پڑوسی ممالک میں مبینہ طور پر تخریب کاری میں ملوث پایا گیا تھا۔ خیر خفیہ محکمہ کے ایک زیرک افسر نے مشورہ دیا کہ دہلی پر متوقع دہشت گردانہ حملے کا ایک الرٹ جاری کرکے اتر پردیش، ہریانہ اور راجستھان پولیس کے سپرد کیا جائے۔ اس الرٹ کے ملتے ہی دہلی سے متصل تینوں ریاستوں کی پولیس نے راستوں کی ناکہ بندی کرکے گاڑیوں کی تلاشی اور سواریوں کی شناخت چیک کرنے کا کام شروع کیا۔ ظاہر ہے کہ دہلی تک جانے والی سبھی شاہراہوں پر جام لگ گیا اور اس کی زد میں فوج کی مشق بھی آگئی۔ پانچ گھنٹے تو دور کی بات وہ 12گھنٹے تک بھی دہلی کے نواح میں نہیں پہنچ پاسکی۔ اگلے روز انکو راستے سے ہی واپسی کا حکم دیا گیا۔ ٹی ڈی ایس کے قیام اور پھر اس واقعہ نے سویلین انتظامیہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ بھارت کے حوالے سے جو مفروضہ قائم کیا گیا تھا کہ فوجی سربراہ بس سویلین حکومت کا ایک ملازم ہوتا ہے، وہ طشت از بام ہو گیا تھا۔ 2014ء کے انتخابات سے قبل جنرل وی کے سنگھ نے باضابط بھارتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور انتخابات جیت کر وزیر بھی بنائے گئے۔ اسی کے ساتھ پارٹی نے سی ڈی ایس کا قیام اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنادیا۔ پانچ سال طویل بحث و مباحثہ کے بعد جو نوٹیفکیشن حکومت نے جاری کیا ہے، اس کے مطابق جنرل راوت بحثیت سی ڈی ایس حکومت کیلئے فوجی معاملات کے سلسلے میں واحد ریفرنس پوائنٹ ہونگے۔ وزیرا عظم یا وزیر دفاع اب براہ راست فوجی معاملات کیلئے ان سے ہی رجوع کریگا۔ اب ان کو فوج ، فضائیہ اور بحریہ سے الگ الگ ان پٹ لینے کی ضرورت پیش نہیں آئیگی۔ اس نوٹیفکیشن کے مطابق وزارت دفاع میں ایک اور محکمہ ملٹری افیسرز کا قائم کیا گیا ہے۔ جس کا سربراہ سی ڈی ایس ہوگا۔ وزارت دفاع میں پہلے ہی پانچ محکمے کام کرتے ہیں۔ جن میں محکمہ دفاع، محکمہ پروکیورمینٹ یعنی اسلحہ کی خرید یا حصولیابی، ڈیفنس ریسرچ کا محکمہ، سابق فوجیوں کی بہبود کا محکمہ اور دفاعی اخراجات یعنی فائننس کا محکمہ شامل ہیں۔ یہ پانچوں محکمے سیکرٹریوں کے تحت ہوتے ہیں اور وہ سیکرٹری دفاع کو رپورٹ کرتے ہیں۔ بھارت میں حکومتی ضابطوں کے مطابق سیکرٹری دفاع ملک کے دفاع کا پابند ہوتا ہے۔ نوٹیفکیشن نے اب کئی سوال کھڑے کئے ہیں۔ سی ڈی ایس، جو محکمہ ملٹری آفیرز کے سیکرٹری کے بطور کام کریگا کا رشتہ سیکرٹری دفاع کے ساتھ کیا ہوگا؟ سیکرٹریوں کی میٹنگ میں اس کا کیا پروٹوکول رہیگا؟ وزیر دفاع کی سربراہی میں سی ڈی ایس ، دیفنس ایکوئزشن کونسل کا رکن ہوگا، دوسری طرف نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کی سربراہی میں ڈیفنس پلاننگ گروپ کا بھی رکن ہوگا۔ گراونڈ فورسز پر اسکا کوئی کنٹرول نہیں ہوگا۔ دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا کے مطابق نوٹیفکیشن سے عیاں ہے کہ مودی حکوت بھی فوجی مداخلت یا بغاوت سے خائف ہے۔ اسی لئے اس نے سی ڈی ایس کے پاورز کو کنٹرول میں رکھنے کا ہر حربہ آزمایا ہے۔ سی ڈی ایس اسٹریجک فورسز کمانڈ ، جن کے تصرف میں جوہری ہتھیار ہوتے ہیں کا انتظامی سربراہ ہوگا۔ انڈومان نکوبار میں مشترکہ کمانڈ، ڈیفنس سائبر ایجنسی اور مجوزہ ملٹری اسپیس کمانڈ کو کو آرڈینیٹ کریگا۔ جنرل راوت کا سب سے بڑا چیلنج اگلے تین سالوں میں 17مشترکہ کمانڈ ترتیب دینا ہوگا۔ سی ڈی ایس آخر ملٹری میں اپنا اقبال کیسے منوائے گا؟ ایک سابق سیکرٹری دفاع کے مطابق ملٹری پروموشن، غیر ملکی پوسٹنگ کے حوالے سے سی ڈی ایس کا اہم رول اسلئے رہیگا کہ وہ حکومت کے ساتھ رابط کا ذریعہ ہوگا۔ جس کی وجہ سے وہ اپنا اقبال قائم کرواسکے گا۔ مگر سروس سربراہان اور سی ڈی ایس کے درمیان اختیارات کی جنگ ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔ سیاچن گلیشر، کشمیر میں آرمڈ اسپشل پاورز ایکٹ، مائو نواز علاقوں میں آرمی کی تعیناتی اور پنشن کے حوالے سے سویلین حکومت اور فوج کے درمیان کئی برسوں سے اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ 2016ء اور اس سے قبل 2008ء میں بھی پے کمیشن کی سفارشات کے حوالے سے فوج نے تحفظات ظاہر کئے تھے۔ فوج کی تینوں شاخوں کے سربراہان نے وزیر اعظم کو بتایا تھا کہ پے کمیشن نے لیفٹیننٹ جنرل کی تنخواہ و مراعات کو ریاستوں کے پولیس سربراہا ن کے برابر رکھ کر ناانصافی کی ہے۔ سویلین بیوروکریسی میں 60فیصد ریکروٹ ایڈیشنل یا مکمل سیکرٹری کے عہدے تک پہنچ جاتے ہیں۔ جبکہ فوج کے کمیشنڈ افسروں میں صرف 10فیصد ہی لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچ پاتے ہیں۔ اسی طرح پچھلے کئی سالوں سے سروسز 2.6ملین سابق فوجیوں اور 60ہزار بیوائوں کیلئے ایک رینک اور ایک پنشن کی مانگ کر رہے ہیں۔ بھارت میں سب سے بڑی اپوزیشن کانگریس نے بھی جنرل راوت کی بطور سی ڈی ایس کی تقرری پر سوال اٹھائے ہیں۔ کانگریس ترجمان منیش تیواری کے مطابق جب سی ڈی ایس خود چار ستارہ جنرل ہے، تو دیگر چار ستارہ سروس چیف کیسے اسکے احکامات کے تابع رہینگے؟ بجائے سلجھنے کے اختیارات کی جنگ شروع ہونے کی صورت میں اس سے معاملات کے مزید الجھنے کے اندیشے ہیں۔غرض اس تقرری نے کئی خدشات کو جنم دیا ہے۔ مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا بھارت میں سویلین انتظامیہ کی برسوں پرانی برتری کے خاتمہ کا وقت قریب آگیا ہے؟