افغان صورتحال پرابھی بھارتی سابق فوج کے کرنل کی گفتگوکی گونج فضامیںموجودہی تھی کہ بھارتی ریٹائرڈ جنرل نے مودی کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ بھارتی آرمی کے سابق کرنل اور دفاعی تجزیہ کار کرنل دھنویر سنگھ کا کہناتھا کہ افغانستان میں پاکستان نے بہت ہی شاندار کام کیا تاہم اس سارے معاملے میں بھارت کی صورتحال بہت ہی گھمبیر ہے۔کرنل (ر)دھنویر سنگھ کا کہنا ہے کہ افغانستان میںبھارت کی حالت اُس لڑکے جیسی ہے جو 2 بڑوں کی لڑائی میں خوامخواہ چانٹے کھا کر روتا ہوا گھر آتاہے۔ بھارتی فوج کے ریٹائرڈ کرنل کے بعد انڈین آرمی میں 40 برس تک فوجی کمانڈکرنے والے اور پرم ویر سیوا میڈل اور اتی وششٹ سیوا میڈل جیسے اعلٰی ترین اعزاز یافتہ ریٹائرڈ لفٹننٹ جنرل ایچ ایس پناگ کا کہنا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد بھارت جس الجھن اور پریشانی کا شکارہے اس کی اہم وجہ اسٹریٹیجک متبادل کا فقدان نہیں بلکہ اس کی وجہ بھارت خوش فہمی اور بروقت صحیح فیصلہ نہ لینا ہے۔ بھارت کے ریٹائرڈ جنرل کاکہنا تھا کہ بھارت دور اندیشی اور تدبر کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا۔ ان کاکہنا تھا کہ ہمارے سفارت کار یہ سمجھ نہیں پائے کہ بھارت کو طالبان سے معاملہ کرنے میں قومی مفاد مدنظر رکھنا چاہیے نہ کہ ان کے نظریات۔ جب ہمیں بہت سے اسلامی عرب ممالک، پاکستان اورایران جیسے ملکوں، جوشرعی قوانین کی اپنی تشریحات پر عمل کرتے ہیں، سے تعلق رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جب ہم آمراور کمیونسٹ حکومتوں کے ساتھ معاملات طے کر سکتے ہیں، جن کے انسانی حقوق کے ریکارڈ انتہائی خراب ہیں، حتٰی کہ خود اپنے اقلیتوں کے ساتھ ہمارا جو سلوک ہے اور انسانی حقوق کی صورت حال پر بین الاقوامی برادری کے جو اعتراضات ہیں، تو ہم طالبان کے ساتھ بات چیت کیوں نہیں کرسکتے۔ جنرل پناگ کے مطابق افغانستان اور طالبان کے حوالے سے بھارت کی موجودہ پریشانی کا ایک اور سبب ہندوقوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظریات ہیں۔ انہوں نے کہا یہ افسوس کی بات ہے کہ بی جے پی افغانستان کی صورت حال کا اپنی گھریلو سیاسی فائدے کے لیے استحصال کرنے سے بھی باز نہیں آئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا سوم ناتھ مندر کی تقریب میں تقریر کرنا اتفاق ہوسکتا ہے لیکن انہوں نے اس موقع پر محمود غزنوی پر جس طرح بالواسطہ حملہ کیا وہ کہیں سے مناسب نہیں تھا۔ ان کے خیال میں بھارت امریکا کے حقیقی ارادوں، طالبان کی طاقت اور بدعنوان منتخب حکومت کی کمزوریوں کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے خود ہی مشکل میں پھنس گیا ہے۔ شمالی کمان اور وسطی کمان کے جنرل آفیسر کمانڈنگ جیسے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے جنرل پناگ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے یہ بھارت کی تاریخی انٹیلیجنس ناکامی ہے۔ بھارت امریکا کے حقیقی ارادوں، طالبان کی قوت اور ایک بدعنوان منتخب حکومت کی کمزوریوں کاصحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہا۔ وہ ایک ایسی حکومت کی حمایت کرتا رہا جو طالبان کے ساتھ معاہدے کرنے اور خود اپنی فوج کی شکست کا منصوبہ تیار کرنے میں مصروف تھی۔ حتٰی کہ طالبان کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے ہم شمالی اتحاد کے جن رہنماؤں پر بھروسہ کررہے تھے وہ بھی پاکستان چلے گئے اور جب طالبان کی پیش قدمی شروع ہوئی تو وہ ہمارے مفادات کو بچانے کے لیے سامنے نہیں آئے۔"جنرل پناگ کے مطابق اس ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بھارت نے اپنی پوری اسٹریٹیجی افغانستان میں امریکا کی مسلسل موجودگی اور افغان حکومت کے استحکام کی بنیاد پر تیار کی تھی اور یہ انٹلیجنس کی ایک تاریخی ناکامی ہے۔ پاکستان اور چین کی سرحدوں پر نگاہ رکھنے والے شمالی کمان کے بھارتی سابق اعلٰی فوجی افسر جنرل پناگ افغانستان میں پیدا صورت حال کے حوالے سے بھارتی رویے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ بھارت نے جلد بازی کرتے ہوئے 17اگست کو کابل میں اپنا سفارت خانہ بھی بند کردیا اور ہزاروں شہریوں کو افغانستان میں یونہی چھوڑ دیا۔ جبکہ طالبان نے بھارتی سفارت کاروں کو حفاظت کی یقین دہانی کراتے ہوئے بھارت سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنا سفارت خانہ نہ چھوڑیں۔ بھارتی لیفٹیننٹ جنرل پناگ کا خیال ہے کہ بھارت چاہتا تو طالبان کے ساتھ زیادہ بہتر سکیورٹی کے حوالے سے با ت چیت کرسکتا تھا۔ ان کاکہنا تھاکہ اگر ہمارا سفارت خانہ وہاں موجود رہتا تو اس سے نہ صرف طالبان کے ساتھ دوریاں ختم کرنے میں مدد ملتی بلکہ ہم اپنے شہریوں، ہندو اور سکھوں اور پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند افغان دوستوں کے مفادات کی حفاظت بھی کرسکتے تھے۔جنرل پناگ کے مطابق بھارت نے کابل ہوائی اڈے پر صرف ایک سفارتی ٹیم رکھ چھوڑی ہے جو وہاں سے لوگوں کے انخلا کے سلسلے میں امریکی فورسز کی ماتحتی میں کام کررہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے عوامی طورپر یہ اعلان کرکے صورت حال مزید خراب کردی کہ بھارت ہندو اور سکھ افغان شہریوں کے انخلا کو ترجیح دے گا۔