نئی دہلی (نیٹ نیوز) بھارت جہاں ایک جانب مقبوضہ کشمیر کا خصوصی تشخص ختم کر کے وہاں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کی تیاری کر رہا ہے تو دوسری جانب ملک میں موجود مسلمانوں کیلئے ایک نیا منصوبہ تیار کیا گیا ہے جس کے تحت 40 لاکھ مسلمانوں کو خصوصی حراستی کیمپوں میں منتقل کر دیا جائیگا جہاں وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونگے اور انہیں کوئی حقوق حاصل نہیں ہونگے ۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے چشم کشا رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ریاست آسام میں 10 بڑے حراستی مراکز بنائیں جائیں گے جہاں لاکھوں افراد کو رکھا جا سکے گا۔ آسام میں رہائش پذیر 40 لاکھ مسلمانوں کو ملک بدری کے خطرے کا سامنا ہے ، حکومت کا کہنا ہے یہ افراد بنگلہ دیشی ہیں جو یہاں آ کر بس گئے ،اب انہیں الٹی میٹم دیا گیا ہے کہ وہ ثابت کریں کہ وہ بھارتی شہری ہیں اور انکے آباؤ اجداد 1971ء سے پہلے یہاں رہائش پذیر تھے ، بصورت دیگر انہیں ملک بدر کر دیا جائیگا۔ ان میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جنہوں نے 25 سال تک بھارتی فوج اور سول سروس میں خدمات انجام دیں لیکن اب انہیں اپنے ہی ملک کا شہری تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ملک بدری کے خوف سے درجنوں افراد خودکشی بھی کر چکے ہیں۔آسامی حکومت نے ٹربیونل تشکیل دے رکھا ہے جبکہ 100 سے زائد عدالتیں بنائی گئی ہیں جہاں ان افراد کے بھارتی شہری ہونے یا نہ ہونے کے مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ہندو انتہاپسندوں کی بھڑکائی آگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ آسام میں 1983 میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور ایک ہزار مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا۔رپورٹ کے مطابق مودی حکومت نے ایک بل پاس کرانے کی کوشش کی جس میں ہندوؤں، بدھوں، مسیحیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو ملک بدری سے استثنیٰ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن مسلمانوں کو یہ استثنیٰ نہیں دیا گیا۔ بی جے پی نے ایک قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کی کہ ہمسایہ ملکوں کے ہندو، مسیحی، سکھ، جین، پارسی اور بدھوں کو شہریت دی جانی چاہئے تاہم مسلمانوں کو اس فہرست سے خارج کر دیا گیا۔بی جے پی کے صدر اور وزیر داخلہ امیت شاہ ان افراد کو کیڑے مکوڑے قرار دے چکے ہیں اور سرعام یہ اعلان کر چکے ہیں کہ اس شہریت بل آسام کے بعد ملک کے دیگر علاقوں میں بھی متعارف کرایا جائیگا۔ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی خطرناک گیم کھیل رہے ہیں اور بھارت کے متنوع اور نازک سماجی تانے بانے کو بکھیرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو صدیوں سے یہاں قائم ہے ۔ کشمیر اور آسام میں جو کچھ کیا جا رہا ہے اسکا مقصد آبادی کے توازن کو ہندوؤں کے حق میں بدلنا ہے ۔ کشمیر کو حاصل خصوصی تحفظ کا خاتمہ کر دیا گیا لیکن بھارت کی دیگر کئی ریاستوں ناگا لینڈ،منی پور، میگھالیہ وغیرہ کو بھی ایسا ہی خصوصی تحفظ حاصل ہے لیکن اسکا خاتمہ نہیں کیا گیا، وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ مسلم ریاستیں نہیں ہیں۔ماہرین سماجیات اور مورخین کا کہنا ہے کہ بھارتی معاشرے میں مسلمانوں کی شراکت کو کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے ،بھارت ایک متنوع ثقافتی معاشرہ ہے اور مسلمانوں کا اس ثقافت میں بہت اہم حصہ ہے ۔