اباحیت کے حق میںبھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ انتہائی شرمناک ہے ۔بھارتی سپریم کورٹ کے اس مذموم فیصلے نے بیک جنبش قلم انسان کو جانور سے بد تر بنادیاکیونکہ جانوربھی غلاظت کایہ فعل نہیں کرتے ۔ہندوستان کی سیاہ تاریخ میں 6ستمبر2018ء کوسیاہ ترین دن کے طورپریادرکھاجائے گاکہ جب فطرت سلیمہ کو مسخ کرنے والے چند اباجیت پسندا ور ذہنی مریضوں کے اصرار و تقاضا پر بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشراکی قیادت میں پانچ رکنی بنچ نے 158سالہ پرانے قا نون انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 377کوختم کر کے ہم جنس پرستی کی خباثت کو قانونی حیثیت دے دی ۔ بھارت جوہرحوالے سے اسرائیل کے نقش قدم پرگامزن ہے ہم جنس پرستی کے حوالے سے بھی اسرائیل کے قدم سے قدم ملاکروہ ایک بہت بڑی لعنت میں گرفتارہوگیا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے مورخہ 6 ستمبر 2018ء بروزجمعرات جوشرمناک فیصلہ سنادیااس فیصلے کے ذریعے بھارت کے ایڈزدہ اورتباہ حال معاشرے کے تابوت میں بھارتی سپریم کورٹ نے آخری کیل ٹھونک دی ۔آج ایڈز نے نہ صرف دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے۔تین سال قبل بھارت کے محکمہ صحت کے وزیر نے اعدادوشماربتاکراس امر کا برملا اعتراف کیاکہ ایڈز کی بیماری بھارت کو بھی تیزی سے اپنی گرفت میں لے رہی ہے۔ ہم جنسیت اوردیگر کئی وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے بھارتی وزیرنے بھارت میں ایڈزکی وباپھیلنے پراعتراف کیا ۔بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اب بھارت اور اسرائیل اخلاقی گراوٹ کے لحاظ سے یکساں ہو گئے۔یوںکندہم جنس باہم جنس پرواز کی مثال بھارت اوراسرائیل کے مشترکات پرپوری طرح صادق آجاتی ہے ۔ بھارتی سپریم کورٹ کے اس مذموم اورقبیح فیصلے سے قبل ’’ہم جنس پرستی‘‘ قانونا جرم تھااوربھارت آئین کے دفعہ 377کے تحت ایسا کوئی بھی فعل قابل سزاتھا۔ اگرچہ بھارت نے اپنے آئین میں اس شق کو انگریز کے قانون سے مستعار لیا تھا کیوںکہ انگریزوں نے 1862ء میں نافذ کیا تھا، جس کے تحت غیر فطری فعل کو غیرقانونی ٹھہرایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اباحیت ،جنسی آوارگی اور ہم جنس پرستی کے نتیجہ میں مغرب کا معاشرتی اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے ۔ گزشتہ تین دہائیوںمیں تقریبا4کروڑ افراد ایڈز کے سبب موت کا شکار ہوئے ہیں اس کا سب سے بڑا سبب ہم جنس پرستی بتایا جاتا ہے ۔مغرب میں ماہرین قوانین اور عدالتوں نے انسانی قدروں کو بے حد پامال کیا ہے وہ مابعد جدیدیت کے اس پہلو پر سختی سے کار بند ہے جس میں مذاہب اور اخلاقی قدروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔وہاں انسان کے بنائے ہوئے قوانین ہی حرف آخر ہیں ۔اخلاق ، اقدار اور وحی الہی سے بے نیاز ہو کر یہی نتائج سامنے آتے ہیں ۔اب بھارت بھی اس کلب میں شامل ہوگیاہے اورایڈززدہ بھارتی معاشرہ ب کس تباہی کاشکارہوگااسے سمجھناچنداں مشکل نہیں۔ جس بھارتی سپریم کورٹ نے ’’ہم جنسیت‘‘ کوقانونی قراردے کربھارتی معاشرے پرایٹم بم گرادیااسی بھارتی سپریم کورٹ نے سال 2013ء میں دہلی ہائی کورٹ کے 2009ء کے فیصلے کو پلٹتے ہوئے ’’ہم جنس پرستی‘‘کی غلاظت میں لت پت دو ہم جنس کے درمیان’’ہم جنس پرستی‘‘ کو جرم کے زمرے میں ڈال دیا تھا۔لیکن اس کے بعد’’ہم جنسیت‘‘کی غلاظت میں لت پت پانچ فاعل و مفعول کی درخواست پر بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشراکی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے سے ہٹانے سے متعلق عرضیوں پر سماعت کرتی رہی ہے، اس بنچ میں جسٹس آر ایف نریمن،جسٹس اے ایم کھانولکر، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اندوملہوترہ بھی شامل تھے، بھارتی سپریم کورٹ نے مودی حکومت سے اس سلسلے میں جواب مانگاتھا ،بھارتی سپریم کورٹ میں مودی حکومت کی نمائندگی کررہے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشارمہتا نے 11 جولائی 2018ء بروزبدھ سپریم کورٹ میں تین صفحات کا (Affidavit) داخل کر کے کہاکہ مودی حکومت کا دفعہ 377کے آئینی جواز سے متعلق کوئی موقف نہیں ہے، مودی حکومت کے نمائندے نے گیندکوبھارتی سپریم کورٹ کے پالے میں ڈالتے ہو کہاکہ اب یہ بھارتی سپریم کورٹ پرمنحصر ہے کہ ہم جنس پرستی کو جرائم کے زمرے میں شمار کرتی ہے یا نہیں۔ جنسی آسودگی کے تمام غیر فطری راستوں کو اسلام سمیت تمام آسمانی کتابوں نے سختی سے بند کیاہے،اس کی تمام شکلیں تمام آسمانی مذاہب میں حرام وناجائز ہیں۔ رب العالمین کی طرف سے آسمانی مذاہب کی تنسیخ اوراسلام کے کامل واکمل اورآخری دین قرارپانے کاحکم نازل ہونے پرغورکیاجائے توصاف طورپرپتاچلتاہے کہ اسلام مکارم اخلاق ،اعلی صفات اور عمدہ کردار کی تعلیم دیتاہے،اسلام کابنیادی مقصد معاشرے کو صالحیت بخشنا ہے۔اسلام میں شادی اور نکاح کا مقصد صرف جنسی خواہشات کی تکمیل وتسکین نہیں، نسل انسانی کافروغ، بقا، تحفظ وتکثر، زوجین کے مابین مودت ومحبت اور تعاون وتناصر مشروعیت نکاح کے اہم ترین مقاصد ہیں،اس کے لیے جنسِ مخالف اوران کے ولی کی رضامندی کے ساتھ علی الاعلان نکاح کاحکم دیا ؛تاکہ معاشرے میں کسی قسم کی بدگمانی پیدا نہ ہو، اس کے برعکس آج کامغربی اورہندومعاشرہ جو خدائی احکام سے بغاوت کرچکاہے۔گندکی قعرمذلت میں گرچکاہے اسلام نے اس فعل کو حرام قرار دیاہے۔ قوم لوط اس جنسی آوارگی کے سبب عذاب سے دوچار ہوئی۔ اس عمل پر ان کو اتنا اصرار تھا کہ باوجود حضرت لوط علیہ السلام کی تعلیمات کومستردکر کے وہ اس جرم عظیم کو انجام دیتے تھے۔پھر جب پکڑ آئی تو ایسی آئی کہ وہ آج تک دوسروں کے لئے جائے عبرت بنے ہوئے ہیں۔ پتھروں کی بارش اور تباہ کن زلزلوں نے ان کی بستی کو زمین دوز کردیا ۔تاریخ کے صفحات سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم لوط جہاں آباد تھی آج اس جگہ بحر مردار( Dead sea) کی خطرناک موجوں کا قبضہ ہے ۔۔آج بھی اس کے اطراف و اکناف میں نحوست کا سایہ اور عبرت کی فضا قائم ہے جو وہاں جانے والوں کے دلوں پر ہیبت طاری کردیتا ہے ۔اس جرم کی پاداش میںاس قوم کی تباہ کاری کے باوجود آج بھارت کی سپریم کورٹ نے بھارتی شہریوںکو اسی بدترین راستے پرڈال دیاہے ۔ بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے ہم جنس پرستی کے حق میںفیصلہ دینے کے باوجودبھارت کے مسلمانوں پریہ فرض ہے کہ وہ اس فیصلے کو مسترد کر دیں کیونکہ یہ اسلام سے متصادم فیصلہ ہے۔ بھارت کے علماء کی یہ دینی ذمہ داری ہے کہ وہ ’’ہم جنس پرستی‘‘کی غلاظت ہم جنس پرستی کی قباحت کوالم نشرح کردیں اورتمام ادیان ومذاہب اور افکار ونظریات کے لوگوں کواباجیت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ فطرت کے خلاف عمل ہے، بھارت کے سب سے بڑے دودینی اداروں دیوبند اور ندوہ سے وابستہ علما ء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مسلم معاشرہ سمیت غیرمسلموں میں بھی اس وبائی اورذہنی مرض سے متعلق دلائل کی روشنی میں گفتگو کریں اور انہیں اس بات پر ابھاریں کہ وہ اس بدترین برائی کو سمجھیں ،نجاست کے اس فعل کے حق میں بھارتی سپریم کورٹ کے جاہلانہ فیصلے کے خلاف ایک مشترکہ سوچ وفکر اختیارکرتے ہوئے احتجاج کے ذریعے اسے مستردکریں تاکہ’’ہم جنس پرستی‘‘ کی غلاظت کے خلاف آوازبلندکی جائے ۔تاکہ بھارتی سپریم کورٹ کواپنے فیصلے کوتبدیل کرنے پر مجبور کر دیا جائے۔