بھارت میں شہریت کے نئے قانون نے کہرام مچا دیا ہے۔ ملک گیر سطح پر مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ مسلسل دراز ہوتاجارہاہے۔ مسلمان‘ جو اس قانون سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں نہ صرف سراپہ احتجاج ہیں بلکہ انصاف پسند ہندو اور سکھ بھی ان کے ہم آواز ہیں۔ پولیس نے جامعہ ملیہ کے طلبہ پر تشدد کیا تو بھارت کے طول وعرض میں صدائے احتجاج بلند ہوئی۔بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینر جی نے لاکھوں افراد کے ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اس قانون کو مسترد کیا۔گزشتہ چھ برسوں میں وزیراعظم نریندا مودی کی حکومت کے خلاف یہ پہلا ملک گیر اور بھرپور احتجاج تھا۔شہریت کے نئے قانون نے حزب اختلاف اور جمہوریت پسند شہریوں پر واضح کردیا کہ بھارت سیکولر اور لبرل ملک کے بجائے تیزی سے ایک کٹر مذہبی ریاست بننے کے راستے پر گامزن ہے۔چناچہ وہ سیاسی وابستگیاں بالاطاق رکھ کر باہر نکلے اور خوب نکلے۔نئے قانون میں خطے کے ممالک مثلاً افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھارت ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو شہریت نہ دینے کا اعلان کیا گیا۔اس پر بھی بہت لے دے ہوئی کہ بھارتی آئین ایسا قانون بنانے کی اجازت نہیں دیتاہے جو غیر مساویانہ ہو۔ نیشنل رجسٹرڈ سٹیزن کا قانون جو پچاس کی دہائی سے موجودہ تھا اب اس پر سختی سے عمل درآمد شروع کردیاگیا ہے۔ جن شہریوں کا نام اس ڈیٹا بیس میں موجود نہیں وہ شہریت سے محروم ہوجائیں گے۔ کہاجاتاہے کہ بھارت کی ریاست آسام میں آباد بیس لاکھ کے لگ بھگ مسلمان کسی بھی وجہ سے اس ڈیٹابیس میں اپنا نام نہیں لکھوا سکے۔حالانکہ یہ لوگ گزشتہ کئی عشروں سے آسام میں آباد ہیں۔ انہیں اب اپنی شہریت ثابت کرنا ہوگی بصورت دیگر ان کے لیے حراستی کیمپوں کی تعمیر جاری ہے جہاں انہیں قید کردیا جائے گا۔ اگلے مرحلے میں انہیں ملک بدر کردیاجائے گا۔وزیرداخلہ امیت شاہ کہتے ہیں کہ ایک بھی غیر قانونی شخص اب بھارت میں قیام نہیں کرسکے گا۔اس کے برعکس غیر قانونی طور پر مقیم ہندووں، سکھوں ، پارسیوں اور عیسائیوں کو نہ صرف فوری شہریت دی جائے گی بلکہ بیرون ملک سے آنے والوں کو بھی۔ بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے سنجیدہ حلقوں میںیہ خطرہ اب شدت سے محسوس کیا جاتاہے کہ بھارت ایک خطرناک راہ پر چل نکلا ہے ۔ اسے روکاٹوکا نہ گیا تو بھارتی مسلمانوں کا حال بھی ایک دن روہنگیا مسلمانوں جیساہوگا۔کیونکہ بھارت کی موجودہ حکومت اسی راستے پر گامزن ہے۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کو معاشرے میں اچھوت بنایاجارہاہے جن کی جان مال اور عزت وآبرو کی کوئی قدر وقیمت نہیں ۔آئے روز انہیں معمولی بہانوں سے عوامی مقامات پر سرعام مارا پیٹا جاتاہے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کے ہاتھوں میں موجودہ بھارتی حکومت کی باگیں ہیں ۔ یہ کوئی سیاسی یا نظریاتی جماعت نہیں بلکہ باقائدہ ایک نیم عسکری تنظیم ہے جو پورے بھارت کو اپنی گرفت میں لے چکی ہے۔اس سال اکتوبر میں آرایس ایس کے سربراہ موئن بھاگوت نے کہا کہ بھارت ایک ہندو دیش ہے۔ ایک ہندو قوم۔ اس پر کوئی سودابازی نہیں ہوسکتی۔ آرایس ایس اور اس سے متاثر افراد مسلمانوںکو غیر ملکی بلکہ ملک دشمن تصور کرتے ہیں۔ داخلی احتجاج اپنی جگہ لیکن عالمی سطح پر بھی اس قانون کے خلاف حیرت انگیز طور پر زبردست نکتہ چینی کی گئی۔ کئی ایک ممالک کے اخبارات نے اس موضوع پر اداریئے لکھے اور قارئین کو بتایا کہ بھارت میں تیزی سے ابھرنے والے انتہاپسندی کی لہر کا یورپ اور امریکہ میں پائے جانے والے سفید فام نسل پرستوں سے گہرا تعلق ہے۔دونوں ایک دوسرے کے نظریات سے متاثر بھی ہیں اور ایک دوسرے کے مددگار بھی۔ یورپی یونین کے ایک ستائیس رکنی وفد نے حال ہی میں سری نگر کا دورہ کیا جو سب کے سب پولینڈ، فرانس اور برطانیہ کی نسل پرست جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی ابھرتی ہوئی سیاسی طاقت سے مرغوب بھی ہیںاور اسے یورپ میں دہرانا چاہتے ہیں۔یورپ کے کئی ایک ممالک اور خاص طور پرلبرل اور انسانی حقوق کے علمبردار سخت پریشان ہیں کہ کئی بھارت سے ابھرنے والی لہر یورپ کے انتہاپسندوں کو فکری غذا اور تنظیمی مدد نہ فراہم کرے۔ ایک اور دلچسپ با ت یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں آباد بھارتی شہریوں کی بھاری اکثریت بھی ان ممالک کی قدامت پسند اورنسل پرست جماعتوں کی حمایت کرتی ہے۔ پاکستان کو عالمی برادری کے اشتراک سے آر ایس ایس اور دیگر انتہاپسند گروہوں کے خلاف لابنگ جاری رکھنی چاہیے۔تاہم آرایس ایس یا بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخالفت کا یہ مطلب نہیں کہ بھارت یا سارے بھارتی شہریوں کو برا بھلا کہاجائے۔اس طرح بھارت کی پالیسیوں پر کسی قسم کے ردعمل کا شکار بھی نہیں ہوناچاہیے۔ کرتارپورراہداری کھول کر پاکستان نے دنیا کو مثبت پیغام دیا کہ وہ ایک صحت مند ملک بننے کی راہ پر گامزن ہے۔ اس طرح بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ بھارت کی نقل کرتے ہوئے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کردینا چاہیے۔ آزادکشمیر کا اسٹیٹس ختم کردینا چاہیے۔ یہ طرز فکر شکست خوردہ ذہنیت کی عکاسی کرتاہے۔ کوئی کشمیریوں کا ساتھ دے یا نہ دے پاکستان کو کشمیریوں کے حق خودارادیت کے موقف سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے کیونکہ یہ اصولی موقف ہے جس کی بنیاد لالچ یا خوف نہیں بلکہ کشمیریوں کی جدوجہد کا مبنی بر حق ہونا ہے۔اسی طرح ریاست جموں وکشمیر کی وحدت کشمیریوں کے لیے ایک جذباتی مسئلہ ہے اسے زیر بحث لانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں قابل ذکر کامیابی نہ ملنے ،داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے اور پاکستان کو دباؤمیں لانے کے لیے بھارت نے کنٹرول لائن پر دباؤ میں اضافہ کردیا ہے۔ محض گزشتہ ایک ہفتے میں تین شہری جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ نیلم ویلی گولہ باری کا اس مرتبہ ہدف ہے۔ آزادکشمیر پر حملہ کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔اس لیے جہاں باخبر اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے وہاں داخلی سطح پر اتحاد اور استحکام کی بھی سخت ضرور ت ہے۔