حکومت کے طویل اور قلیل مدتی منصوبوں میں سے عوام کو اول الذکر کا خیرمقدم کرنا چاہئے کیونکہ ان پر عمل دَرآمد موجودہ دور کے عوام ہی کو نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی فیضیاب کرتا ہے۔ یہ الگ بات کہ حکومتیں آخر الذکر کو ترجیح دیتی ہیں۔ معاشیات کے طلبہ جانتے ہیں کہ معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے کسی بھی ملک میں دو طرح کی پالیسیاں ہوتی ہیں جنہیں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ایک ہوتی ہے فسکل پالیسی اور دوسری مانیٹری پالیسی۔ فسکل پالیسی کی کمان حکومت کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جبکہ مانیٹری پالیسی سب سے بڑا مالی ادارہ طے کرتا ہے۔ اب سنئے کہ ہمارے ملک میں کیا ہورہا ہے۔ بھارتی مالیاتی ادارہ آر بی آئی نوٹوں کی طباعت کرنے جارہا ہے اور حکومت اس سے وہ پیسہ قرض لے کر اْس خسارہ کو پورا کرنا چاہتی ہے جو کورونا کی وباء کی وجہ سے ہوا اور ہورہا ہے۔ موجودہ بحران سے نمٹنے کیلئے یہ ایک قابل جواز تدبیر ہوسکتی ہے مگر اتنے پر ہی اکتفا نہیں ہوگا بلکہ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، حکومت کی معاشی پالیسی کے دو پہلو یا دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے اور اس سے حاصل شدہ پیسہ ضروری اخراجات کیلئے استعمال کرتی ہے۔ یہ فسکل پالیسی کہلاتی ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ آر بی آئی کرنسی نوٹ چھاپتی ہے ، اس ذخیرہ کو بینکوں کو فراہم کرتی ہے، بینک وہ بانڈ خریدتے ہیں جو حکومت فروخت کرتی ہے اور اس طرح حکومت کو پیسہ ملتا ہے۔ یہ مانیٹری پالیسی کہلاتی ہے۔ جب حکومت ٹیکس میں اضافہ کرتی ہے تو اس کاخمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر حکومت نے جی ایس ٹی میں اضافہ کردیا تو صارفین کو ہر اس چیزکی زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے گی جو ہم خریدیں گے۔ حکومت اس زائد آمدنی سے جو بھی خرچ کرے گی وہ یا تو آج ہوگا یا آئندہ۔ اگر حکومت اس پیسے سے بجٹ بڑھاتی ہے یا غذا ئی سبسیڈی میں اضافہ کرتی ہے یا چھوٹے تاجروں اور کاروباریوں کو مالی مدد فراہم کرتی ہے تاکہ وہ ملازمین کے پراویڈنٹ فنڈ کا وہ حصہ ادا کریں جو کمپنی یا فرم کو ادا کرنا ہوتا ہے تو فائدہ ملنا فوراً شروع ہوجائیگا۔ یہ فسکل پالیسی کا حصہ ہے۔ اس کے برخلاف، اگر پیسہ بلٹ ٹرین، قومی زیر آب راستوں کی تعمیر یا مریخ پر جانے والے خلائی مشن پر خرچ کیا گیا توجو فائدہ عوام کو ملنا ہے وہ تین، پانچ یا دس سال بعد ملے گا کیونکہ ان پروجیکٹوں کے پایۂ تکمیل تک پہنچنے کو ایک عرصہ درکار ہوتا ہے جو عموماً طویل ہوتا ہے۔ آر بی آئی کے ذریعہ کرنسی نوٹ چھپ جائے تو اس کا بوجھ مستقبل پر پڑتا ہے۔ فرض کرلیجئے کہ معیشت میں 100کروڑ روپے کی کرنسی گردش کررہی ہے اور اسی معیشت میں 100کروڑ کا مال خریداری کیلئے دستیاب ہے۔ ایسی صو رت میں اگر آر بی آئی مزید 10 کروڑ کے نوٹ چھاپتی ہے اور حکومت کو یہ پیسہ کمرشیل بینکوں کے ذریعہ ملتا ہے تو مارکیٹ میں مال تو اْتنی ہی قیمت (100کروڑ کا) کا دستیاب ہے جو نوٹس کی چھپائی سے پہلے تھا، مگر معیشت میں کرنسی نوٹ بڑھ گئے۔ وہ اب 110 کروڑ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جو قلم کل تک10 روپے میں بیچا اور خریدا جارہا تھا اب 11 روپے میں دستیاب ہوگا کیونکہ اب 100کروڑ کے مال کا تعاقب 110کروڑ روپے کررہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اشیاء کی قیمتیں بڑھنے میں وقت لگتا ہے۔ پیسہ حکومت قرض لے گی، پھر اسے کسی مد کیلئے مختص کرے گی مثال کے طور پر اگر ٹرانسپورٹ کی وزارت ٹینڈر نکالے گی، ٹھیکیدارٹینڈر بھریں گے، چند کا انتخاب ہوگا، اب ٹھیکیدار ہائی وے بنائے گا اور اپنے اخراجات، محنتانہ او رمنافع کا بل بنا کر حکومت کو دے گا تب کہیں جاکر جو پیسہ حکومت نے لیا وہ معیشت میں داخل ہوگا۔ قارئین پر واضح ہوچکا ہوگا کہ جو پیسہ لیا گیا وہ کس طرح خرچ ہوگا تو اس کا فائدہ کتنی جلدی اور کتنی دیر میں عوام تک پہنچے گا۔ جومثالیں دی گئیں ان کے مطابق پیسہ صحیح جگہ پر خرچ کیا گیا تو عوام کو فوری فائدہ ملے گا اور اگر ہائی وے پر خرچ کیا گیا تو معیشت میں پیسے کے آنے میں وقت لگے گااور عوام کو فائدہ تاخیر سے ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت مانیٹری پالیسی اختیار کرتی ہے تاکہ سیاستدان غذا پر سبسیڈی دے کر فوری سیاسی فائدہ اْٹھائیں اور اس کا بوجھ آنے والی نسلوں کو برداشت کرنا پڑے۔ جبکہ دوسرے طریقے (فسکل) میں بوجھ آج برداشت کرلیا جاتا ہے تاکہ آئندہ نسلیں فائدہ اْٹھاتی رہیں۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے سربراہ ِ خاندان بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتا ہے جو ایک طرح کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ مانیٹری پالیسی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں جوابدہی سے بچا جاسکتا ہے جبکہ فسکل پالیسی میں عوام کی بے چینی بڑھ جاتی ہے اور وہ دریافت کرنے لگتے ہیں کہ وہ زیادہ ٹیکس کیوں ادا کریں؟ انہیں اس کا جواب چاہئے ہوتا ہے۔ وہ حکومت کے ذریعہ ہونے والے اخراجات میں بدعنوانی بھی دیکھنے لگتے ہیں اور یہ بھی کہ حکومت کہاں کتنا پیسہ ضائع کررہی ہے۔ ایسے میں اْن کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت ٹیکس کا بوجھ بڑھا کر عوام کی پریشانی میں اضافہ کرنے کے بجائے اپنے معاملات درست کرے۔ مانیٹری پالیسی میں آر بی آئی کے ذریعہ نوٹوں کی چھپائی اور حکومت کا قرض لینا ایسی چیزیں ہیں کہ ان پر عوام کی نگاہ نہیں ہوتی اور حکومت سے کچھ دریافت بھی نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو یہی طریقہ کار (مانیٹری) پسند ہے۔ اس پس منظر میں ضروری ہے کہ وباء کی وجہ سے پیدا شدہ معاشی حالات کا بوجھ ہم خود اْٹھائیں اور حکومت کو اس کی اجازت نہ دیں کہ وہ آئندہ نسلوں کی فلاح کے کاموں کو روک کر اْن کا نقصان کرے۔ ہمیں چاہئے کہ حکومت کو مانیٹری پالیسی سے بچنے اور فسکل پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کریں۔ (بشکریہ روزنامہ انقلاب بھارت )