شہریت ترمیمی قانون کا معاملہ سپریم کورٹ نے مزید 4 ہفتوں کیلئے ٹال دیا ہے۔ عدالت نے شہریت قانون پر حکم التواء یا پھر عمل آوری پر عارضی پابندی لگانے سے انکار کرتے ہوئے ان تمام سیکولر ، انصاف پسند اور امن پسند عوام کو مایوس کردیا ہے جو مذہب کی بنیاد پر سماج اور ملک کی تقسیم روکنے کیلئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے حکم التواء سے انکار کرتے ہوئے دوسرے معنوں میں شہریت قانون کے نفاذ کو ہری جھنڈی دکھادی ہے۔ مرکز کو جواب داخل کرنے کیلئے چار ہفتوں کی مہلت نے ملک اور بیرون ملک صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے انصاف کی امیدیں وابستہ کرنے والوں کو مایوس کردیا ہے۔ عدالت کی جانب سے کسی راحت سے انکار نے مودی۔امیت شاہ کے حوصلوں کو بلند کردیا جو سیاہ قانون کے خلاف احتجاج اور جانی قربانیوں کے باوجود ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے تیار نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ قانون کے نفاذ کے بعد دستوری بنچ کی تشکیل اور درخواستوںکی سماعت سے کیا فائدہ ؟ درخواست گزاروں کو قانون کے نفاذ کے بعد کیا راحت ملے گی ؟ دستور اور قانون کے ماہرین کا ماننا ہے کہ دستور کی خلاف ورز ی کے معاملہ میں سپریم کورٹ قطعی سماعت تک قانون پر عمل آوری کو روکنے کا اختیار رکھتا ہے۔ دستور سے جڑے اس معاملہ میں سارے ملک کو سپریم کورٹ سے کافی امیدیں تھیں۔ جب کبھی مقننہ اور عاملہ دستور اور قانون کے خلاف کوئی قدم اٹھائے تو دستور اور قانون کے تحفظ اور پاسداری کی ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔ ان حالات میں عدلیہ عوام کیلئے امید کی آخری کرن ہوتی ہے۔ انصاف میں تاخیر ، انصاف سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ لہذا عوام نے سپریم کورٹ سے کافی توقعات وابستہ کرلی تھی۔ قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ 18 دسمبر کو پہلی سماعت کے موقع پر حکومت کو جواب داخل کرنے کیلئے ایک ماہ کی مہلت دی گئی لیکن حکومت نے اس مہلت کو ضائع کردیا۔ لہذا مزید چار ہفتوں کا وقت دیتے ہوئے قانون کے نفاذ پر روک لگائی جاسکتی تھی۔ ظاہر ہے کہ چار ہفتے بعد دستوری بنچ تشکیل پائے گا جو از سر نو سماعت کا آغاز کرے گا جس سے انصاف رسانی میں مز ید تاخیر ہوگی۔ شہریت ترمیمی قانون کا معاملہ بھی دفعہ 370 کی برخواستگی اور طلاق ثلاثہ کے مقدمات کی طرح ٹھنڈا پڑجائے گا۔ کشمیری عوام کو بھی عدلیہ سے انصاف نہیں ملا۔ مرکزی حکومت اہم مقدمات کو ٹالنے کی حکمت عملی پر کاربند ہے اور عدلیہ سے بالواسطہ طور پر مدد مل رہی ہے۔ شہریت ترمیمی قانون دستور کی واضح خلاف ورزی ہے اور اس معاملہ میں حکومت کے موقف کو جاننے کی چنداں ضرورت نہیں تھی کیونکہ حکومت کا موقف وہی ہے جو قانون میں ہے۔ شہریت قانون کے خلاف ملک بھر میں جاری عوامی احتجاج کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کو از خود مداخلت کرنی چاہئے تھی۔ جامعہ ملیہ کے طلبہ پر پولیس کارروائی کے معاملہ میں سپریم کورٹ نے کوئی راحت نہیں دی۔ بابری مسجد اراضی معاملہ کی 40 دن مسلسل سماعت کے بعداکثریت کی بنیاد پر فیصلہ سنایا گیا۔ عدالت نے مسجد کے وجود اور نماز کی ادائیگی کو تسلیم کیا۔ مسجد میں مورتیوں کے رکھے جانے اور 6 دسمبر 1992 ء کو انہدام غیر قانونی قرار دیا۔ اتنا ہی نہیں عدالت نے کہا کہ مندر توڑ کر بابری مسجد کی تعمیر کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ان تمام حقائق کو تسلیم کرنے کے باوجود خصوصی اختیارات کا استعمال کر کے آستھا کی بنیاد پر اراضی مندر کے حوالے کردی گئی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ فیصلہ کے خلاف نظرثانی اپیلوں کو سماعت کے مرحلہ میں خارج کردیا گیا۔ جب اکثریتی طبقہ کا عدلیہ کو خیال ہے تو پھر ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے مذہبی جذبات کا احترام شریعت کے معاملہ میں کیوں نہیں ؟ شہریت قانون کے خلاف سوائے بی جے پی اور سنگھ پر یوار کے سارا ملک متحد کھڑا ہے لیکن عدلیہ نے مداخلت یا پھر در خواستوں پر کارروائی کو مناسب نہیں سمجھا اورحکومت کو قانون کے نفاذ کا موقع فراہم کردیا۔ عدلیہ کا کام ثبوت اور گواہوں کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے۔ اگر عوامی جذبات کو ملحوظ رکھنا ہو تو پھر ہزاروں لاکھوں احتجاجیوں کے جذبات کا بھی احترام ہونا چاہئے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدلیہ کے امور میں سرکاری مداخلت اور سیاسی دباؤ نے انصاف رسانی کے عمل کو متاثر کیا ہے جس کے نتیجہ میں عوام کا اعتماد متزلزل ہوسکتا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے ججوں نے حکومت کی مداخلت کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مودی حکومت عدلیہ پر کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ اسے محض اتفاق کہا جائے یا کچھ اور کہ گزشتہ پانچ برسوں میں سپریم کورٹ کا کوئی اہم فیصلہ حکومت کے خلاف نہیں آیا۔ مقدمات کو طوالت دے کر انصاف رسانی میں اگر عدلیہ عوام کو مایوس کر دے تو پھر انصاف کیلئے کہاں جائیں گے۔ دستور اور قانون کا تحفظ عدلیہ نہیں تو کون کرے گا ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت کے فیصلوں پر مہر لگانے والے اداروں میں عدلیہ کا شمار ہونے لگے۔ پارلیمنٹ کے بعد صدر جمہوریہ کی منظوری حاصل کی جاتی ہے لیکن اب تک مبصرین کے مطابق عدالت سے بھی فیصلوں کے حق میں مہر ثبت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت چاہتی یہی ہے کہ عدلیہ اس کے فیصلوں کی تصدیق کریں۔ ہندوستان میں عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری شبہ سے بالاتر ہے۔ کئی نازک اور اہم موا قع پر عدلیہ نے دستور اور قانون کا تحفظ کیا۔ اس عظیم روایت کی برقراری کیلئے عوام ابھی بھی پرامید ہیں۔ شہریت قانون پر عدالت کا رویہ انصاف پسندوں اور سیکولر طاقتوں کیلئے آزمائش سے کم نہیں۔ روزانہ ملک کے کسی نہ کسی حصے میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد گھر بار چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں تاکہ حکومت کو یہ احساس دلایا جاسکے کہ وہ دستور کے خلاف فیصلوں کا اختیار نہیں رکھتی۔ ملک کے کونے کونے میں احتجاج کے باوجود حکمرانوں کی پیشانی پر بل نہیں آیا اور نہ ہی کوئی جنبش دکھائی دی۔ دراصل مودی حکومت کے پاس عوامی جذبات کا کوئی احترام نہیں ہے۔ لہذا شہریت قانون، این آر سی اور این پی آر کے بارے میں موقف کو مزید سخت کرلیا گیا۔ ان حالات میں سیکولر اور انصاف پسند طاقتوں کو پست ہمت ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں حوصلہ مندی اور ثابت قدمی کے ساتھ پرامن احتجاج کو جاری رکھنا چاہئے۔ جمہوریت میں احتجاج کے ذریعہ ہی عوام کو جھکایا جاسکتا ہے لیکن مودی حکومت عملاً اندھی ، بہری اور گونگی ہوچکی ہے۔ عوامی احتجاج اور حکومت کی ہٹ دھرمی کے درمیان کچھ ابن الوقت سیاسی قائدین اپنی ہٹ دھرمی کے درمیان کچھ ابن الوقت عمل پیرا ہیں۔ (بشکریہ: سیاست، بھارت)