ہندو قوم پرستوں کو بھی اس مسلم ووٹ کو بے وزن کروانے میں دانتوں پسینہ آجا تا تھا۔ مسلمان بالعموم انتخابات میں اپنی قوت‘ پسندیدگی یا ناراضگی کا مظاہرہ بھی کرتے رہے ہیں۔ شمالی بھارت میںسیاسی لحاظ سے کانگریس کی کمزوری کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کی ناراضگی تھی۔1989 ء کے بھاگلپور فسادات کے بعد بہار میں اور 1992 ء میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں مسلم ووٹرجو کانگریس سے ناراض ہوگئے ، اس کی مار سے وہ ابھی تک ابھر نہیں پائی ہے۔ اسی طرح 2002 ء کے گجرات فسادات کے بعد 2004ئکے عام انتخابات میں کانگریس کی قیادت والی سیکولرمخلوط حکومت مسلمانوں سہارے ہی اقتدار تک پہنچی۔گو کہ 2014ء کے بعد ملک میں ہندو قوم پرستی کے احیاء ، اور مودی اور امیت شاہ کے فارمولہ نے ہندو ووٹوں کو یکجا کرکے کسی حد تک مسلم ووٹوں کو بے وقعت کر کے رکھ دیا، مگر اس سے قبل بھارتی مسلمان سیکولر اتحاد کو مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ ، فسادات میں ملوث افراد کو انتخابی میدان میں سزا دلوانے اور انکو سیاسی طور پر بے وزن کروانے میں رول ادا کرتے تھے۔ مگر سوال ہے کہ جب وہ گجرات میں 2000 مسلمانوں کے قاتلوں کی نیندیں حرام کرواتے ہیں، تو آخر کشمیر کے ایک لاکھ مسلمانوں کے قتل سے کیوں چشم پوشی کرتے ہیں؟ چند برس قبل کشمیر اسمبلی کے ایک رکن انجینئر عبدالرشید اور کچھ صحافیوں کے ہمراہ ایک مدت کے بعدمولانا وحید الدین خان صاحب کے شرف نیاز حاصل کرنے کا موقعہ ملا۔ انجینئر صاحب رکن اسمبلی ہونے کے ناطے کشمیر میں ایک طرح سے بھارتی جمہورریت کا چہرہ تھے۔ وہ بضد تھے۔کہ مولانا صاحب سے جموں کشمیر کی صورتحال کے بارے میں رائے معلوم کر کے ان کے وسیع تجربے سے کچھ مفید اور قابل عمل اقدامات اٹھانے کے لئے کچھ رہنمائی بھی حاصل کی جائے۔خیر نمازِ ظہر تک مولانا کی تقریر اور سوال وجواب کا دلچسپ سلسلہ جاری رہا۔ رسمی علیک سلیک کے بعدممبر اسمبلی نے مولانا کی توجہ کشمیر کی صورتحال خاص طور سے انسانی حقوق کی ہورہی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کراکے مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے حوالے سے مولانا کا نقطہ نظر جاننا چاہا۔ مولانا نے مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل بتایا کہ کشمیری ’’امن‘‘ کا راستہ اپنائیں لیکن اس سے پہلے انہیں تسلیم کرناہوگاکہ ان کی گزشتہ کئی دہائیوں کی جدوجہد غلط تھی۔رشید صاحب نے مولانا سے عرض کیا کہ امن کی خواہش کشمیریوں سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتی لیکن انصاف کے بغیر امن کاقیام کیسے ممکن ہے ،تو مولانا نے فرمایا کہ انصاف کو امن کے ساتھ جوڑنے والے لوگوں کی یہ ذہنی اختراع ہے۔ ان کے بقول کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازعہ کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ جموںوکشمیر کے تنازعے کو تو خودہی بھارتی لیڈر اقوام متحدہ میں لے گئے تھے،اس میں کشمیریوں کا کیاقصور؟وہ بے چارے تو صر ف وعدہ کے ایفا ہونے کامطالبہ کرنے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ ہر وقت اپنی مرضی سے گول پوسٹ تبدیل تو نہیں ہوسکتے ہیں۔ اس پر مولانا غصّے سے لال پیلا ہوگئے اورہال چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ منٹ انتظار کے بعدہم بھی وہاں سے واپس چلے گئے۔اس سے قبل میز پر ان کا لکھا ہوا ایک پمفلٹ دیکھا، جس میں انہوں نے کشمیری مسلمانوں کو ہدایت دی تھی، کہ اپنے کردار اورتبلیغ سے وہاں موجودسات لاکھ بھارتی فوجیوں اور نیم فوجی دستو ں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں، اور ان کے ساتھ روا مخاصمانہ رویہ بند کریں ۔کشمیریوں کو تبلیغ کا مشورہ دینے والے پھر ملک میں 125کروڑ ہندوں کو مسلمان کیوں نہیں بناتے۔ بھارتی مسلمان لیڈروں کو کشمیرکے مسئلے کے حل کے حوالے سے کئی تحفظات اور خدشات لاحق ہیں۔ ان کو سب سے پہلے یہ وہم لاحق ہے کہ اگر کشمیر کسی بھی طرح سے الگ ہواتو اس سے ان کے لئے ملکی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کے اس صورت میں بقول ملک کی اکثریتی آبادی پورے ملک کے مسلمانوں کو ملک دشمن، فرقہ پرست اورعلیحدگی پسندوں کے طور پر دیکھ لے گی۔ لہٰذا اگر یوں کہاجائے کہ بھارتی مسلمان لیڈران جموں وکشمیر کے مسلم اکثریتی کردار کواپنے دفاع اور ہندوانتہا پسندوں کے لئے توڑ مانتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ انہیں کہیں لگ رہا ہے کہ اگرکشمیربھارت سے الگ ہوا تو وہ غیر محفوظ ہوکے رہ جائیں گے۔ غرض مسلمان لیڈروں کی غالب اکثریت جموں و کشمیر کے سیاسی مسئلے کو عدل اورانصاف سے زیادہ اپنے اوپراس کے پڑنے والے اثرات کے نقطہ نگاہ سے دیکھتی ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ اس مخصوص سوچ سے باہر نہ وہ سوچنے کے لئے تیار نظر آرہے ہیں۔ اب جس طرح امیت شاہ نے ان کو بے وقعت بنایا ہے ، اسمیں کشمیر یوں کا کیا قصور ہے ؟ کوئی بھارتی مسلم دانشوراورحساس طبقے سے یہ پوچھے کہ اگرآپ ایک طرف خود کوکشمیری مسلمانوں سے کسی بھی قیمت پر جدا نہیں کرنا چاہتے ہیں تو پھر کم از کم جموں و کشمیر میں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کبھی اپنے لبوں کو معمولی سی جنبش دینے کی بھی زحمت گوارا کیوں نہیں کرتے؟ آپ جموں وکشمیر میں روز ہونے والی زیادتیوں کے خلاف صرف اس لئے آواز اٹھانے سے گھبرارہے ہیں کہ کہیں آپ پر ملک دشمنی کا لیبل لگنے نہ پائے۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ آپ کشمیریوں کے بھارت کے ساتھ ’’نکا ح‘‘ نامہ برقرار رکھنے کی بھی خواہش کریں اور پھر بے گناہ کشمیریوں پر ہونے والی زیادتیوں کے خلاف ایک بھی لفظ صرف اس لئے نہ بولیں کہ ہندوانتہاپسند آپ سے ناراض نہ ہوں؟ (جاری ہے)