چنددنوں کی بات ہے کہ آپ دیکھیں گے ایک بارپھربھارتی مسلمان سڑکوں پرہونگے ۔ شہریت ترمیمی قانون کے متعلق بھارتی ایوان بالا راجیہ سبھا میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بتایا ہے کہ: شہریت ترمیمی ایکٹ CAA2020 کے تحت قانون سازی جاری ہے، یہ ایکٹ یکم اکتوبر 2019ء سے بھارت میں موثر ہوچکا ہے، اب اس کے تحت تیاریاں ہورہی ہیں، ہندوستانی پارلیمنٹ نے اس ایکٹ کو مرتب و عملی شکل دینے کیلیے 9 اپریل سے9 جولائی2021ء تک کا وقت دیا ہے، امیت شاہ کاکہنا تھاکہ یہ قانون تو بن چکا ہے اس کے نفاذ کی تیاریاں کی جارہی ہیں ۔اب تک بھاجپا کے کچھ، سیاستدان عوامی ریلیوں میں CAA اور NRC کے حوالے سے بحث کرتے تھے جس پر یقینا توجہ کی ضرورت نہیں تھی، لیکن بھارتی وزارت داخلہ کے اس تازہ اعلامیہ کے بعداس کانفاذ طے ہے ۔ اب جبکہ بھارتی وزارت داخلہ مسلمانان بھارت کے خلاف CAAاورNRCکے ظالمانہ اورکالے قانون کے لیے تیاری کررہی ہے تو کیا بھارت کے مسلمان خاموش تماشائی بنے رہیں گے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مسلمان تکڑی منصوبہ بندی کررہے ہیں اوراس بار وہ اپنے منصوبوں پربہت زیادہ سنجیدہ ہیں۔یہ منصوبہ بندی جراتمندانہ ایکشن پلان کی ہوگی اوریہ ایک ایسا متحدہ اور منظم منصوبہ ہوگاجس پربھارت کے کونے کونے میں رہنے بسنے والے مسلمان پوری ایمانداری سے عملدرآمد کریںگے۔تاکہ وہ اپنے خلاف ہورہے زہر ناک منصوبوں کوخاک میں ملاکرہی دم لیں ۔ شہریت ترمیمی قانون کو دسمبر 2019 ء میں بھاجپائی اکثریت والی بھارتی پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا، اس ترمیمی ایکٹ کے ذریعے بھارت میں شہریتی ضابطے متعصبانہ اور مذہبی بنیادوں پر ہوجاتے ہیں، یہ ایکٹ کہتا ہے کہ، افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے سبھی انسانوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی سوائے مسلمانوں کے، یہ ترمیمی ایکٹ NRC قانون سے غیرمسلموں کو محفوظ کرنے اور مسلمانوں کو متعصبانہ متاثر کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ قانون پاس ہونے کے بعد بھارت بھر میں بھاجپا۔ آر، ایس، ایس کے نسل پرستانہ برہمنی عزائم کیخلاف احتجاج پھوٹ پڑا تھا، اس ظالمانہ قانون کو یونیورسٹیوں کے سٹوڈنٹس اور شاہین باغات کی خواتین کی باہمت کوششوں نے چیلنج کیا تھا، جس کی وجہ سے ظالم ہندوتوا سرکار نے یونیورسٹیوں کے بچوں اور بچیوں پر بے تحاشا مظالم بھی ڈھائے۔ بھارتی مسلمانوں کی صفِ اول کی قیادت احتجاجی تحریکات کی سربراہی میں ناکام رہی، اس لیے کہ بڑی حد تک موجودہ سیاسی و دیگر لیڈرشپ نے غیرمنصوبہ بند روش اختیار کی ہوئی ہے، ان کی پالیسیاں عارضی ہوتی ہیں، قومی کاز پر مفاد پرستی اور تنظیمی و جماعتی مفادات کو مقدم رکھا جاتا ہے ، شخصی نزاعات اور گروہی عصبیت کو ترجیح دی جاتی ہے، یا پھر بزدلی ان میں گھر کر گئی ہے ظالم حکمرانوں سے وہ سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی ہرسطح کی لیڈرشپ زمینی سطح پر اپنی کمیونٹی میں اپنا وقار مجروح اور اعتماد کھو چکی ہے، ان کے خلاف عدمِ اعتماد، اور ان سے نفرت کی لہر نئی نسل میں عام ہوچکی ہے، کیونکہ بابری مسجد کی شہادت سے لیکر مسلم مخالف شہریت ترمیمی قانون آنے تک وہ کسی جگہ بھی ظالمانہ ہندوتوا استعمار کیخلاف ٹک نہیں سکے ۔ شہریت ترمیمی قانون جیسے بدترین ظالمانہ قانون کیخلاف ڈھال کون بنے؟ اس کو مزید سمجھنا ہے تو یہ دیکھیے کہ، این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی تحریک چھیڑنے کے جرم میں سرکاری ایجنسیوں اوربھارتی وزیرداخلہ امیت شاہ کی منسٹری نے پارلیمنٹ سے لیکر بھارت کے تمام جیلوں تک میں کن نوجوانوں کوہدف بنایا اور کن کو قید کیا ہے؟ آپ کو شرجیل امام، خالد سیفی، عمر خالد، اکھل گوگوئی، آصف اقبال، اطہر خان، نتاشا، صفورا زرگر اور گل فشاں جیسی کئی صورتیں ہی نظر آئیں گی، ناکہ آنریبل، عزت مآب، شریمان، مسٹر و جناب، حضرت و پیر، حضرت قائد ملت، نظر نہیں آئیں ہر وہ مومن جس نے قرآن کے نور اور ایمان کی فراست سے زندگی کو تازہ رکھا ہو ا ہے ا سے یہ آشکار حقیقت ہوجائے گی۔ بہرحال یہی وجہ تھی کہ، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی تحریک میں لیڈرشپ کا انتشار و بحران صاف محسوس کیاگیا، اور سابق تحریک کووڈ لاک ڈائون کی وجہ سے بلا دائمی نتیجہ ختم ہوئی۔ ایسے وقت میں جبکہ کسان احتجاج اپنے عروج پر ہے اور مودی سرکار اور آرایس ایس کے استعمار کوج ناکوں چنے چبوا چکاہے،دہلی کے دروبام وہ ہلاچکا ہے جسے دیکھ کربھارتی مسلمان بہت کچھ سیکھ کر اپنی منصوبہ بندی کو زمینی شکل دینے کے لئے پرتول رہے ہیں،ممکن ہے اور یہ بعیداز قیاس بھی نہیں کہ مستقبل قریب میںکسان تحریک اور CAAکے خلاف اٹھنے والی تحریک اکھٹے ہوکر برہمنی دماغ سے کیڑے نکالنے کی کوشش کریں ۔ سوال یہ ہے کہ جب بھارتی وزارت داخلہ مسلمانان بھارت کے خلاف CAA اور NRCکے ظالمانہ اورکالے قانون کے لیے تیاری کررہی ہے تو کیا بھارت کے مسلمان خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مسلمان تکڑی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اوراس بار وہ اپنے منصوبوں پربہت زیادہ سنجیدہ ہیں۔یہ منصوبہ بندی جراتمندانہ ایکشن پلان کی ہوگی اوریہ ایک ایسا متحدہ اور منظم منصوبہ ہوگاجس پربھارت کے کونے کونے میں رہنے بسنے والے مسلمان پوری ایمانداری سے عملدرآمد کریںگے۔تاکہ وہ اپنے خلاف ہورہے زہرناک منصوبوں کوخاک میں ملاکرہی دم لیں گے ۔