گزشتہ روز ایک ویڈیو کلپ نظر سے گزرا جو جنرل مشرف کی پاکستان کے سیاسی منظر سے رخصتی کے بعد بھارت میں ہونے والی خطے میں تبدیلیوں کی ایک کانفرنس سے لیا گیا تھا جوبھارتی میڈیا گروپ انڈیا ٹو ڈے کے زیر اہتمام تھی جس میںجنرل مشرف نے بھارتی مسلمانوں کو احساس دلانے کی کوشش کی کہ انکی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے اور یہ مزید خراب ہو سکتی ہے۔بھارتی پارلیمنٹ کے ایک رکن مولانا مدنی کو سوال کا کہا گیا تو وہ جنرل مشرف کے اس بیان سے بہت جز بز تھے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہندوستان میں پاکستان سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں اور بہت خوش و خرم ہیں۔ یہاں پر ہمارے ہموطن جو کسی بھی مذہب سے ہوں ہمارے لئے کٹنے مرنے کو تیار ہیں۔جنرل مشرف نے جواباً کہا کہ اگر یہ سب درست ہے جو آپ کہہ رہے ہیں تو مجھ سے زیادہ خوش کوئی نہیں ہو گا لیکن میں جو کچھ بولتا ہوں وہی میرے دل اور دماغ میں ہوتا ہے کیونکہ میں منافقت پر یقین نہیں رکھتا، امید ہے آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔یہ دس سال پرانی بات ہے اور بھارت کے موجودہ حالات میں مولانا مدنی اگر حیات ہیں تو ضرور اس دن کو یاد کر رہے ہونگے کہ کیوں جنرل مشرف کی بات پر یقین نہیں کیا لیکن شاید انکو یہ پچھتاوا نہ ہو کیونکہ 1947ء میں قائد اعظم نے بھارتی مسلمانوں کو بار بار انتباہ کیا تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعدجو حالات ہونگے وہ انکے لئے قابل برداشت نہیں ہونگے۔ اسی طرح سے مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی جیسے لوگ وہاں کی قیادت کو سمجھاتے رہے کہ دہلی کی حکومت کے دھوکے میںنہ آئیں لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔5 اگست2019 ء کے اقدام کے بعد ’’بھارت کے ہٹلر‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا کہ: مقبوضہ جمّوں و کشمیر کے بارے میں بھارتیا جنتا پارٹی کا جو بھی منشور رہا ہو لیکن مودی کے اقدام سے بھارت کے زیر تسلط علاقے میں رہنے والوں کی جبر اور ظلم کا شکار زندگیوں میں اگر کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے تو وہ مزید ظلم اور استبداد ہو گا۔ کیونکہ قانون بنانے یاہٹانے سے یہ معاملہ حل ہونا ہوتا تو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے متفقہ اور اہم دستاویز کوئی نہیںہے۔ جس کودنیا کے ساتھ ساتھ دونوں ملک آج تک مانتے ہیں اگر کوئی تبدیلی ہوئی تو وہ 1972 ء کا شملہ معاہدہ ہے جو بنیادی طور پر اس معاملے میں تیسرے فریق کی ثالثی قبول کرنے میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور معاملے کو باہمی طور پر حل کرنے پر زور دیتا ہے لیکن آج تک اقوام متحدہ کی قراردادوں سے لیکر لاہور ڈیکلیریشن تک، بھارتی کانگرس ہو یا بی جے پی کسی نے یہ نہیں کہا کہ کشمیر کا سٹیس تبدیل ہو گیا ہے یا یہ دونوں ممالک کے درمیان حل طلب مسئلہ نہیں ہے۔ جہاں تک مودی سرکار کا آئینی اقدام کا تعلق ہے تو پاکستان نے کبھی آرٹیکل 370کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا اور بھارت نے پاکستان کے اس مئوقف پر کبھی اعتراض بھی نہیں کیا۔ یہ آرٹیکل بنیادی طور پر کشمیر کے اندر ایک مخصوص گروہ کو بھارت سرکار کا حامی بنانے کی ایک چال تھی جنہیںاقتدار کا نشہ لگانے میں کامیاب ہو گئے۔ شیخ عبداللہ کے خاندان سے لیکر محبوبہ مفتی تک بہت سے لوگ و طن فروشی کے دھندے میں لگے رہے صرف اپنے اقتدار کے لئے۔ جب مودی سرکار نے انہیں انکی اوقات یاد دلائی تو رو رہے ہیں کہ ہم نے دو قومی نظریہ نہ مان کر غلطی کی۔‘‘ یہی بات اب ہندوستان مین بسنے والے مسلمان کر رہے ہیں جو اس سے پہلے، بقول مولانا مدنی بہت خوش و خرم تھے اور انکے ہموطن ہندو انکے لئے کٹنے مرنے کو تیار تھے، اب یہ ہموطن مسلمانوں کو کاٹ بھی رہے ہیں اور مار بھی رہے ہیں۔اس موقعہ پر صدر ٹرمپ کا دورہ ہوا ۔ دہلی میں جہاں وہ راشٹر پتی بھون میں بھوجن کر رہے تھے اسکے باہر سڑکوں پر آر ایس ایس کے غنڈے مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں میں گھس کر انہیں مار رہے تھے اور انکے جائیدادوں کو آگ لگا رہے تھے۔ صدر ٹرمپ مودی کی ان خدمات کے سلسلے میں مودی کو ’’فادر آف انڈیا‘‘ کاٹائٹل نواز کر چلتے بنے لیکن انہیں شاید اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ یہ سوتیلا باپ ہے جس کے لئے صرف ہندو سگے ہیں باقی سب ذاتیں، مذہب کے لوگ قابل نفرت ہیں۔دہلی میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو مودی نے بطور وزیر اعلیٰ گجرات کیا تھا۔ گجرات کے مسلمان کافی خوشحال کاروباری رہے ہیں۔ وہاں پر سب تگڑے مسلمانوں کے کاروبار کو جلایا گیا اور معاشی طور پر انہیں کمزور کر کے پھر انکی نسل کشی کی گئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے مودی اور آر ایس ایس کے نظریے کے بارے میں بین الاقوامی برادری کو آگاہ کیا تھا کہ یہ ہٹلر سے متاثر ہو کر جماعت قائم کی گئی تھی جو ہندو بالا دستی پر یقین رکھتی ہے اور جس طرح جرمن اپنے آپ کو برتر نسل سمجھتے تھے اور انہوں نے اس بنیاد پر یہودیوں کی نسل کشی کی یہاں پر ہندوتوا کا نظریہ یہی کچھ کرنے جا رہا ہے۔ایک سال پہلے شاید کسی کو یقین نہیں تھا لیکن شکر ہے اب دنیا کو اس بات کا احساس ہونا شروع ہوگیا ہے۔ گزشتہ روز کیمبرج یونیورسٹی کی پروفیسر پریا گوپال نے ایک ٹی وی انٹر ویو میں بہت صراحت کے ساتھ اس مائنڈ سیٹ کا تجزیہ کیا۔ انکا کہنا تھا کہ جو لوگ دہلی اور بھارت کے دوسرے شہروں میں ہونے والے واقعات کو ہندو مسلم فسادات کا نام دے رہے ہیں اور یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ دو برابر کی طاقتور قوتوں کے درمیان تصادم ہے وہ اس معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کی بھونڈی کوشش کر رہے ہیں۔’’یہ اکثریت کی بنیاد پر ہندو بالا دستی اورا علیٰ نسلی زعم ہے جو قتل و غارت کا باعث بن رہا ہے اور یہ با لکل 1930ء والے جرمنی کی صورتحال ہے جہاں نازیوں نے یہودیوں کے گھروں اور کاروبار کوڈھونڈڈھونڈ کر تباہ کیا اور انہیں قتل کیا، دہلی میں یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ امریکی اور برطانوی میڈیا اسکو equal and opposite کی لڑائی کے طور پر پیش کر رہا ہے جو کہ بالکل غلط ہے‘‘۔