بھارتی میڈیااپنا ضمیراسفل السافلین کی قعرمذلت میں پھینک کرجب سے مودی کی گودمیں پل رہاہے تب سے اس کاایک ہی کام ہے اوروہ ہے مسلمانوں کے خلاف صریح کذب بیانی ،جھوٹ اوربہتان پرمبنی سنسنی خیزخبروں کے ذریعہ اشتعال پیدا کرنا اوربھارت کے ایک ارب آٹھ کروڑ ہندوئوں اوردیگرغیرمسلموں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہرہلاہل گھول کرانکے دماغ خراب کرنا ۔بے شرم بھارتی میڈیاجس پاگل پن میں مبتلااورجس شرمناک ایجنڈے پرمصروف کارہے مسلمانان بھارت کے ساتھ شوشل بائیکاٹ کے ذریعے اب اس پاگل پن کے مہلک اثرات واضح طورپر سامنے آنے لگے ۔جب سے مودی نے بھارتی میڈیا کوگودلیا ہے تب سے مسلمانان بھارت جوپہلے ہی لاچار ، نادار، بے بس تھے تب سے کلی طورپرلاوارث بن گئے۔ اب لوگوں کی زبانوں پربھی منوں فقل پڑگئے ہیںاوروہ بھی انکے حق میں نہیں بول رہے جوان کے ووٹ بٹورکران کااستحصال کرتے رہے ہیں۔ سچ کوجھوٹ بنانا یا اختراع کرنا ایک شیطانی فن ہے،سچ کوجھوٹ ثابت کرنے کے لئے برجستگی، ڈھٹائی، طوطا چشمی، تکرار اس ابلیسی مکر کاخاصہ ہے۔ بھارتی میڈیاچینلوں نے مسلمانان بھارت کے خلاف جھوٹ سے ہرطرف اودہم مچارکھا ہے اور ہر ٹی وی چینل بڑھ چڑھ کر اپنے آقامودی کے ’’فلسفہ جھوٹ‘‘ پرعمل پیراہوکرسچ کو مٹانے کے لیے سبقت لیجانے کی دوڑمیں لگاہواہے۔ میڈیا مباحثوں میں سپید کو سیاہ اور سیاہ کو سپیدبنانے کے بے ضمیراجھالے دن کو تاریک رات ثابت کرکے کمال فن کے ساتھ مکرکرنے میں مصروف ہیں ۔ اقتدار کی گود میں بیٹھاہوابھارت کا الیکٹرانک میڈیا پرانے زمانہ کے جاگیرداروں کے ٹکڑوں پر پلنے والے ان بدقماش غنڈوں سے کم نہیں ہے جو جاگیرداروں کے اشارہ ابر پرآن واحدمیںسرراہ شرفاء کی عزت خاک میں ملا دیتے تھے۔ گذرے ہوئے زمانے میںجس کے سبب شرفا ء جاگیردار سے زیادہ ان کے پالتو خدمت گاروںسے ڈرتے تھے جنکے سامنے شرفا کو اپنی دستار سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔عین اسی طرح آج مسلمانان بھارت کو جتنی دہشت کاسامنا مودی کے زر خرید میڈیااوراسکے پالتوٹی وی اینکروں سے ہے اتناتو ڈنڈا بردارپولیس کرمچاریوں سے بھی نہیں۔ ارنب گوسوامی ، سدھیر چوہدری جیسے درجنوں گنوار، جاہل اورپاگل اینکروںکی ٹی وی اسکرین پر چنگاڑتی خوفناک شکلیں جب نمودار ہوتی ہیں تو مسلمانان بھارت کوڈرلگتاہے کہ یہ درندے کاٹ نہ کھائیں۔ایسے درندوں کے ٹی وی اسکرین پرنمودارہونے سے مسلمانان بھارت گھبرا کر اپناٹی وی سیٹ بندکردیتے ہیں۔ اگرکوئی غلطی سے چینل بدلنے کی کوشش کر بیٹھے تو دوسرے چینل پر اس سے بھی بھیانک عفریت دانت نکالے کھانے والی خونخوار نظروں سے ناظرین کو گھورتا ملتا ہے۔ تبلیغی جماعت کی آڑ میں بھارت کے گودی میڈیانے مسلمانان بھارت کے خلاف جو نفرت انگیز مہم چھیڑرکھی ہے اور انہیںبھارت بھرمیں کورونا وائرس کے پھیلنے کا ذمہ دار ٹھرایاجا رہا ہے۔اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ اقتصادی بائیکاٹ بھی شروع ہوچکاہے۔ آئیے چند ایک واقعات کاتذکرہ کرکے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف جاری یہ زہریلاپروپیگنڈاکس طرح کے گل کھلارہاہے۔دہلی میں کئی علاقوں میں مسلم سبزی فروشوں کو ہندو علاقوں سے بھگایا جا رہا ہے اورسوشل میڈیاکے ذریعے ایسی ویڈیوز شیئر کی جا رہی ہیں جن میں ہندوئوں کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ اپنے علاقے میں مسلمانوں کو نہ گھسنے دیں اور اگر کوئی سبزی فروش آئے تو پہلے اس کاشناختی کارڈجسے وہ’’ آدھار کارڈ‘‘کہتے ہیں دیکھیں، اگر وہ مسلمان ہے تو اسے فورا وہاں سے بھگا دیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں14،اپریل منگل کودہلی میںمسلم سبزی فروش محمدسلیم کی ہڈی پسلی ایک کردی گئی۔ انگریزی ویب سائٹ (The Citizen)پر راجیو کھنہ کی ایک بہت بڑی اسٹوری شائع ہوئی ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ کس طرح بھارتی پنجاب اور ہماچل پردیش کے مسلم گوجروں’’دودھ فروشوں‘‘ کا اقتصادی بائیکاٹ کر دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ لوگ دودھ کا بزنس کرتے ہیں۔ لیکن تبلیغی جماعت کے واقعہ کے بعد ایک تو ان سے دودھ نہیں خریدا جا رہا ہے دوسرے ان پر حملے بھی ہو رہے ہیں۔ مجبور ہو کر بہت سے لوگوں نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا ہے اور دوسری جگہ جا کر خانہ بدوشوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔بھارتی پنجاب میں بہت سے مسلم گوجر خاندانوں نے ہندئووں کے حملوںکے باعث اپنا گھر بار چھوڑ دیا ہے۔ ایسی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جن میں لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مسلمانوںسے رابط رکھیں اور نہ ہی ان سے دودھ نہ خریدیں۔ جس کے نتیجے میں ان سے دورہ لینے والا کوئی نہیں ہے اورانہیںمجبوراََ دودھ نہروں میں بہانا پڑ رہا ہے۔پٹھان کوٹ اور گورداس پور میںچاروں طرف یہ پیغام پھیلایا جا رہا ہے کہ کورونا پھیلنے کے ذمہ دار مسلمان ہیںاس لئے ان کے ساتھ کوئی لین دین نہ کریں۔جبکہ ہماچل پردیش کے چمبا میں مسلم گوجروں کا خاموش بائیکاٹ کر دیا گیا ہے۔ سنڈلا، سلونی اور بانی کھیت میںمسلمان گوجروں سے کوئی بھی دودھ نہیں خرید رہا ہے۔چمبا میں مسلمانوں کے ساتھ صورتحال اس طرح پیش آرہی ہے کہ جو لوگ گھر گھر راشن پہنچا رہے ہیں ان سے کہا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے گھروں میں راشن نہ دیں اورانہیں بھوکاپیاسامرنے دیں۔بنارس کے مسلم اکثریتی علاقے مدن پورہ کی ایک حاملہ خاتون فوزیہ شاہین دردِ زہ میں مبتلاہوئیں۔ اہل خانہ اسے بی ایچ یو اسپتال لے کر پہنچے لیکن وہاں موجود طبی عملے کے سامنے بطورمسلمان اس کی شناخت ہوئی تواسے کہاگیا کہ یہاں سے فوراََ بھاگ جائو تم لوگ کورونا لے کر چلے آئے ہو۔مسلمان خاتون درد سے چیختی اور تڑپتی رہی مگر اسپتال میں داخلہ نہیں ملا۔