حالیہ بھارتی انتخابات میں بھارتیا جنتا پارٹی اور اس کی تقریبا پینتالیس اتحادی جماعتوں کے اکٹھ،جس میں زیادہ تر قوم پرست جماعتیں شامل ہیں کی تاریخی کامیابی نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ سیکولر ہندوستان کا نعرہ ایک فریب ہی تھا ۔مودی کا بھارت،بھارت کا اصل چہرہ ہے اور ہمیں اس کے لئے مودی اور بی جی پی کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ بی جے پی کی موجودہ انتخابات میں شاندار کامیابی جسے انتخابی زبان میں کلین سوئیپ کہا جاتا ہے ، کسی ایسے شخص کے لئے غیر متوقع نہیں تھی جو اس ہندو ذہنیت سے واقف ہو جو تقسیم ہند کے وقت موجود تھی۔ہاںیہ ان خوش فہموں کے لئے ضرور غیر متوقع تھی جو ہندو توا کے پس منظر سے تو واقف ہیں ،لیکن ان کا خیال ہے کہ جدید جمہوریت میں پرانے تعصبات کی اب گنجائش نہیں رہی۔ بھارت میں ایسے خوش فہم افراد کی تعداد فطری طور پہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں پائی جاتی ہے جن کے لئے سیکولر بھارت ان کے بقا کے لئے آخری جائے پناہ ہے۔بھارتی انتخابات کے نتائج ایسے لوگوں کے لئے دل شکن ہوسکتے ہیں جو اس کی ایک بار کامیابی کو محض اتفاق سمجھ بیٹھے تھے اور انہیں لگتا تھا کہ آج نہیں تو کل بھارت کے افق پہ مذہبی رواداری کا سورج ضرور طلوع ہوگا حالانکہ ان کی اس خوش فہمی کی جڑ تو اسی وقت کٹ جانی چاہئے تھی ،جب گجرات کا قاتل مودی پورے بھارت کی قسمت کا مالک بن بیٹھا تھا۔ نریندرامودی جیسے مضبوط،بے رحم اور فیصلہ ساز افراد آنے والے عالمی منظرنامے کی ضرورت کیوں ہیں، یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ بھارت کی داخلی انتخابی سائنس میں حساب کتاب لگاتے ہوئے وہ دو اہم باتیں نظر انداز کرگئے تھے۔ ایک بھارت میں مسلم دشمنی کا عنصر ، دوسرے عالمی سیاسیات میں سخت گیر اور خود رائے قسم کے حکمرانوں کا ظہور جو درحقیقت مسلم دشمنی کا ہی تسلسل ہے۔بھارت میں مودی کا برسراقتدارآنا دو اہم سوالوں کا جواب ہے۔ دنیاکی سب سے بڑ ی جمہوریت ہونے کا دعویدار بھارت کی عوام نے اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے مودی کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔پاکستان کے علی الرغم ،بھارت میں فوج پہ انتخابات پہ اثرانداز ہونے یا انتخابی انجینئرنگ کے الزامات لگائے جاتے ہیں نہ ہی کسی کو سلیکٹڈ وزیر اعظم ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے ۔ اس اعتبار سے بھارتی جمہوریت پاکستان میں موجود ایک مخصوص طبقے کے لئے بڑی آئیڈیل ہے جو ہر مسئلے کا ملبہ فوج پہ ڈال دیتا ہے۔اسے نوید ہو کہ بغیر کسی بیرونی یا اندرونی مداخلت کے بعد ہر پانچ سال بعد کسی رکاوٹ کے بغیر انجام پانے والے اس جمہوری عمل میں بھارتی عوام نے اپنا فیصلہ گجرات کے قاتل ، مسلم دشمن اور اقلیتیوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے والے مودی کے حق میں دے دیا ہے۔ اس سے یہ بات بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت ہوجاتی ہے کہ بھارتی جمہور کی اکثریت متعصب، مسلم اور اقلیت دشمن، پاکستان کے وجود کو برداشت نہ کرنے والی اور ہندوتوا کی پرچارک ایک مذہبی اکثریت ہے۔ اس طرح بھارت ایک عین جمہوری ملک تو ہے لیکن سیکولر ہرگز نہیں ہے ورنہ سیکولر کانگریس کو ایسی عبرتناک شکست نہ ہوتی کہ اندرا گاندھی کا پوتا راہول گاندھی کانگریس کے گڑھ امیٹھی میں سمرتی ایرانی سے منہ چھپاتا پھرتا۔ چلیں ایک فیصلہ تو ہوا۔ اب ایک خوش فہمی اور دور کرلیںکہ کانگریس کوئی سیکولر جماعت ہے جسے بھارتی مسلمانوں کا مفاد اتنا ہی عزیز ہے جتنا کہ ہندووں کا۔ اس خوش فہمی میں مولانا ابولکلام آزاد طویل عرصے تک رہے اور اپنے پیروکاروں کو مبتلا بھی رکھا۔ آج کانگریس کو سیکولر جماعت کہنے والے نامعلوم وجوہات کی بنا پہ، یا کسی مقبول بیانیے کی تقلید میں اس حقیقت کو فراموش کرجاتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ کے مقابل بی جے پی نہیں یہی کانگریس تھی جو مسلم دشمنی کی ہر حد پار کر گئی تھی۔ ایک اورقابل غور بات یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے وقت مذہبی جماعتیں قیام پاکستان کے حق میں نہیں تھیں یا مسلم لیگ کی نیم سیاسی اور پوری مذہبی بنیادوں پہ مخالفت کر رہی تھیں لیکن مسلم اکثریت نے انہیں مسترد کرتے ہوئے معتدل (سیکولر نہیں) مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دئیے۔ یعنی مسلمان اقلیت کا فیصلہ مذہبی رہنماؤں کے حق میں نہیں تھا لیکن آج ستر سال گزرنے کے بعد بھی بھارتی جنتا کی اکثریت کا فیصلہ ہندوتوا کے حق میں ہی آتا ہے۔ اس ذہنیت کو آج بھی اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ موجودہ انتخابات میں سیکولر جماعت ہونے کی علمبردار کانگریس آئی ، جس کے ووٹروں میں معقول تعداد مسلمانوں کی ہے، 423 امیدواروں میں سے صرف 32 امیدوار مسلمان تھے۔اس سے بہتر تو بی جے پی ہے جس نے مسلم کشی کے پس منظر کے باوجود سات امیدوار مسلم اکثریتی صوبوں میں اتارے ۔اس سے قبل بھی سات ہی مسلمان امیدوار بی جے پی کی طرف سے تھے اور ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا تھا۔ظاہر ہے انہیں نہ مسلمانوں کے ووٹ ملے ہونگے نہ ہندووں کے۔کانگریس نے حیرت انگیز طور پہ بہار میں اپنے مسلمان سابق سیکریٹری جنرل ، جونئیروزیر ، خاندانی کانگریسی اور مضبوط ترین امیدوار شکیل احمد کو نامعلوم وجوہات کی بنا پہ ٹکٹ نہیں دیا۔انہوں نے احتجاجا آزاد امیدوار کے طور پہ الیکشن لڑا جہاں سے وہ پہلے دو بار جیتتے آئے تھے۔کانگریس نے احتجاجا انہیں نکال باہر کیا۔بہار میں تنظیم امارات شریعہ کے مولانا انیس الرحمن قاسمی کا کہنا تھا کہ کانگریس مسلمانوں کے ووٹ تو مانگتی ہے لیکن انہیں ٹکٹ نہیں دینا چاہتی۔یونائیٹڈ مسلم امپاورمنٹ کے مستقیم صدیقی کا خیال ہے کہ کانگریس نے بی جی پی کا اتنا خوف مسلمانوں میں بٹھا دیا ہے کہ وہ اگر ایک مسلمان کو بھی ٹکٹ نہ دے، تب بھی ہم خاموش رہیں گے۔ یاد رہے کہ بھارتی لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے حساب سے بہت کم ہے جو سن اسی کے مقابلے میںنو فیصد سے سکڑ کر صرف دو فیصد رہ گئی ہے۔ اس کی وجہ بی جے پی کی مسلمان دشمنی سے زیادہ کانگریس کا منافقانہ رویہ ہے جو مسلمانوں سے ووٹ تو لیتی ہے لیکن انہیں ٹکٹ دے کر لوک سبھا میں بھیجنے کو تیار نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کانگریس اپنے اتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی ہے جو مسلمانوں کو لوک سبھا میں نہیں دیکھنا چاہتے اور اپنے اوپر مسلم دوستی کا لیبل بھی نہیں لگانا چاہتی۔ اصل اور اندر کی بات مستقیم کہہ گئے ہیں کہ بی جے پی کا ہوا کھڑا کرکے کانگریس نے دراصل مسلمانوں کو خاموش کردیا ہے۔اب رفتہ رفتہ شکیل احمد جیسے دیرینہ رہنماوں کو ٹکٹ نہ دے کر مسلمانوں کا راستہ بھارتی سیاست میں روکنے کے لئے کانگریس اپنے طریقے استعمال کررہی ہے۔ ایسے میں مولانا قاسمی کا بیان بڑا معنی خیز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو آزادی کے دور کے رہنماوں کی ضرورت ہے جو ان کے حقوق کی بات کریں۔ مجھے امید ہے ان کا اشارہ ابوالکلام جیسے رہنماوں کی طرف نہیں ہوگا جن کا بیانیہ ستر سال بعد غلط ثابت ہوا ہے۔ کوئی محمد علی جناح جیسا دور اندیش ہو تو اور بات ہے۔