بھارت دنیا کا واحدملک ہے جو سر کاری سطح پر دہشت گردی کوفروغ دیتا،پروان چڑھاتا، دہشت گردتیار کرتا اوراپنے پڑوسی ممالک میں ایکسپورٹ کرتا ہے دوسری طرف بھارتی حکمرانوں کی ڈھٹائی اور بے شرمی کی انتہا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو دہشت گردقراردیتے ہیں حالانکہ مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری جدوجہد دہشت گردی نہیں بلکہ آزادی کی تحریک ہے۔ یہاں تک کہ اہل کشمیر کا آزادی کا حق جواہر لال نہرو نے بھی تسلیم کیا تھااور یو این او نے بھی تسلیم کر رکھا ہے۔چنانچہ اہل کشمیر نے حق خودارادیت تسلیم کروانے کے لئے ہر کوشش کرڈالی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہا۔سواہل کشمیر نے ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے1988ء میں مسلح جدوجہدکا آغاز کیا۔ بھارت اس تحریک کو دبانے اورکچلنے کے لئے ہر حربہ و ہتھکنڈہ استعمال کرچکا ہے۔ بھارتی مظالم کا اندازہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی درج ذیل رپورٹ سے کیاجاسکتاہے جس میں بتایاگیاتھاکہ ’’مقبوضہ جموں کشمیر میں روارکھے جانے والے بھارتی مظالم کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔بیٹوں کو مائوں بہنوں کے سامنے ننگا کرکے ماراجاتا ،ان کے جسموں پر کھولتا ہوا پانی ڈال دیا جاتاہے جس سے ان کی کھال اتر جاتی ہے بعدازاں ان کے زخموں پر مرچیں چھڑک دی جاتی ہیںجس سے وہ تڑپ تڑپ اور سسک سسک کر موت کے اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں۔‘‘ 2007ء میں ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ’’مقبوضہ جموں کشمیر میں گرفتار شدہ افراد پر وحشیانہ تشدد کے علاوہ ان کی خوراک اور پانی بند کردیاجاتا ہے،انہیں سونے نہیں دیا جاتا،بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے اورجسموں میں سوراخ کردیئے جاتے ہیں۔‘‘ حقیقت ہے کہ بھارتی فوج کے مظالم تحریک آزادی کو تیزدم کررہے،تازہ ایندھن اورگرم خون مہیاکررہے اور تحریک آزادی کشمیر کمزور ہونے کی بجائے مضبوط ہورہی ہے۔ جب ایک نوجوان بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوتا ہے تو کئی نوجوان اسلحہ تھام کر انتقام لینے کے لئے میدان میں آجاتے ہیں۔ اس کی تائید ہیومن رائٹس واچ نے بھی کی۔ ایک بھارتی فوجی نے اپنی ڈائری میں ایک واقعہ لکھا’’ بھارتی میڈیا اوربھارتی حکمران کہتے ہیں مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی فوج دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہی ہے مگر ایسا نہیں ہم جموں کشمیر میں جنہیں مارہے ہیں وہ بیگناہ لوگ ہیں باقی رہے ہم فوجی ہم تو حکم کی تعمیل پر مجبور ہیں ہمیں جو کہا جاتا اور تربیت میں سکھایا جاتاہے ہم وہ کرتے ہیں۔‘‘ کشمیر کی تحریک آزادی گلے کی ایسی ہڈی بن چکی ہے جسے بھارت نگل سکتا ہے اور نہ اگل سکتا ہے۔ جس کی تازہ مثال ابوالقاسم اوربرہان مظفر وانی کی شہادت اور اس کے بعد کی پیدا شدہ صورت حال ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے ضلع پلوامہ کے علاقے ترال کے گاؤں داد سارامیں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ متوسط گھرانے میں برہان نے آنکھ کھولی۔ شہیدکے والد مظفر وانی گورنمنٹ سیکنڈری اسکول لوری گرام ترال کے ہیڈ ماسٹر اور حساب کے استادتھے۔ والدہ میمونہ ظفرسائنس گریجوایٹ اوراتوارکے روزگاؤں کی خواتین کوقرآن پڑھاتی ہیں۔ان دونوں کے چار بچے تھے۔بڑا بیٹا خالد مظفر وانی ایم کام میںتھا۔ چھوٹا بیٹا برہان وانی میٹرک میں تھا۔18سالہ بہن ارم مظفروانی انٹرکی طالبہ اور16سالہ چھوٹابھائی نویدعالم وانی میٹرک کاطالب علم تھا۔ اب سے آٹھ برس پہلے دو ہزار دس کے کسی ایک دن دو نوںبھائی خالد مظفر ، برہان مظفر اور ان کا ایک دوست موٹرسائیکل پر جا رہے تھے کہ پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ کے اہلکاروں نے انھیں بلاوجہ روکا تلاشی کا مطالبہ کیا تینوں نے نہایت ہی خاموشی اور شرافت سے تلاشی دی لیکن پولیس اہلکاروں نے ان کی خاموشی کو بزدلی سمجھتے ہوئے پیٹنا شروع کردیا۔ ناز و نعم میں پلاخالد بے ہوش ہوگیا جبکہ برہان اور اس کا دوست وہاں سے فرار ہوگئے۔برہان شہیدکے والدمظفروانی کہتے ہیں’’بھارتی فوجیوں کے مظالم کی داستانیں سن کرکم عمربرہان بے چین ہوجایاکرتاتھا۔وہ بھارتی فورسزکے مظالم کے کئی واقعات اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ چکاتھا، درندہ صفت فوجیوں کے خلاف اس کے دل میں نفرت کالاواپک رہاتھا۔بڑے بھائی خالد کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعد وہ بہت بے چین رہنے لگاتھا۔پھرایک دن موسم سرما کی صبح وہ اچانک گھرسے غائب ہوگیا۔یہ سولہ اکتوبر کا دن تھااورصرف دس دن بعداس کا دسویں کلاس کاسالانہ امتحان تھا۔نویں جماعت میں میرے بیٹے نے پورے کشمیرمیں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی۔وہ ایک خاموش طبع، حساس، دینداراورہونہارطالب علم اورایک اچھا کرکٹر تھا۔ کچھ عرصے بعدہمیںاطلاع ملی کہ وہ حرب المجاہدین میں شامل ہوچکا ہے۔ اگلے پانچ برس تک برہان سیکورٹی فورسزکوتگنی کاناچ نچاتارہا۔اس دوران وہ مقبوضہ وادی کاسب سے مقبول جہادی کمانڈربن چکاتھا۔اس کی حیثیت ایک افسانوی کردارجیسی تھی۔نوجوان کشمیری نسل نے اسے اپنارول ماڈل قرار دیااورپورے کشمیرمیں بچے بچے کی زبان پراس کا نام تھا۔پانچ برس کے دوران برہان وانی شہید نے قابض بھارتی فوجیوں کے خلاف کئی خطرناک، کامیاب آپریشن کئے اورمعرکے لڑے،جن میں بیسیوں فوجیوں کے علاوہ اعلی عہدوں کے حامل بہت سے افسرمارے گئے۔ اس کے بعدہی بھارتی حکومت نے برہان وانی شہید کے سرکی قیمت دس لاکھ مقررکردی۔8جولائی کو برہان وانی ککرناگ میں اپنے دیگر دو جہادی ساتھیوں کے ہمراہ ایک مقامی دوست فاروق احمدکے گھرمیں موجود تھا کہ بھارتی افواج نے فاروق احمدکے گھرکامحاصرہ کرلیا۔اس مقابلہ میں برہان نے اپنے دوساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کیا۔ 21سالہ برہان وانی کی شہادت پر بھارتی حکومت کو جس شدید ترین ردعمل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کی مثال مقبوضہ جموں کشمیر کی گزشتہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ظلم،جبر، تشدد اورخونِ ناحق ہمیشہ ردعمل کو جنم دیتا ہے۔بھارتی حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ ظلم کے ہتھکنڈوں سے آزادی کے بڑھکتے شعلوں کو ٹھنڈا کر رہے ہیں، لیکن بھارتی فوج کا ظلم آزادی کے شعلوں کو مزید تیز ترکر رہا ہے۔ یہی معاملہ برہان وانی شہیدکا تھا۔ بھارتی فوج کے مظالم نے اسے شعلہ مستعجل اور پھر آتش فشاں بنا دیا۔ وانی کی شہادت کا بدلہ لینے کے لئے بیسیوں مجاہد میدان میں آ چکے ہیں۔ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کے بقول برہان وانی کی مقبولیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ سری نگر میں 40بار اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور مجاہدین نے کلاشنکوفوں سے سلامی دی۔ حالات صاف بتا رہے ہیں کہ اب بھارت کے لئے تحریک آزادی پر قابو پانا ناممکن ہو چکا ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد بھی کئی نامور کمانڈر جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔