حیاتیاتی اصطلاح میں بات کریں تو میں کسی ایسی چیز کو نہیں جانتا جو عمر بڑھنے کے ساتھ بہتر ہوتی ہو۔سپین کے نیشنل سینٹر فار ان کولوجیکل انویسٹ یگیشن میں ڈاکٹر میوویل سرانو کی یہ بات کافی افسردہ کرنے والی ہے۔وہ 'سائنز اف ایجنگ' نامی ایک نئی تحقیق کے مصنفین میں سے ایک ہیں جس میں محققین  وقت گذرنے کے ساتھ ہمارے جسم میں رونما ہونے والی بنیادی عوامل کی فہرست مرتب کرتے ہیں۔سرانوکا کہنا ہے کہ یہ عوامل ناگزیر ہیں۔

ڈاکٹر سرانو کا کہنا ہے کہ مختلف افراد میں ان کے زندگی گزارنے کے انداز یا جینیاتی وجوہات سے ان عوامل کا اظہار کم یا زیادہ ہو سکتا ہے لیکن ایسا ہمیشہ ہوتا رہتا ہے۔ممالیہ مخلوق جن میں انسان بھی شامل ہے میں درج ذیل علامتوں سے عمر بڑھنے کا اشارہ ملتا ہے۔ہمارا ڈین این اے ایک جنیاتی کوڈ ہے جو ایک عمل کے تحت خلیوں کے درمیان منتقل ہوتا ہے۔بڑھتی ہوئی عمر اس عمل میں ہونے والی غلطیوں میں اضافہ کرتی ہے۔یہ غلطیاں خلیوں میں اکھٹی ہو جاتی ہیں۔

یہ رجحان جینیاتی عدم استحکام کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ خاص طور پر اس بات سے متلعق ہے جب ڈی این اے کی غلطیاں خام خلیوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ایسے سیل جن سے تمام دوسرے مخصوص وظائف پیدا ہوتے ہیں۔جینیاتی عدم استحکام خام خلیوں کے کردار کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔اگر غلطیاں بڑھتی رہیں تو وہ خلیے کو کینسر سے متاثر کر سکتی ہیں۔وقت کے ساتھ کروموسومز اثر کھو دیتے ہیں

ڈے این اے کے فتیلے کے سرے پر خول کرموسومز کی حفاظت کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے جوتوں کے تسموں کے کناروں پر لگے ہوئے خول۔انھیں ٹیلو میئرز کہا جاتا ہے۔ جیسے جیسے ہم بوڑھے ہوتے ہیں یہ حفاظتی بند کمزور ہو جاتے ہیں اور کروموسومز کا بچائو ختم ہو جاتا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ یہ افزائشِ نو میں غلطیاں کرتے ہیں جو مسائل کا سبب بنتی ہے۔سائنسی تحقیق نے ٹیلومیٹرز کو پھیپھڑوں کی نسیجوں کی سوزش اور سرخ خلیوں میں نشو نما کی خرابی جیسی خطرناک بیماریوں سے منسلک کیا ہے۔سائسن دان پہلے ہی کامیابی سے اس لحمیے کی مقدار کو بڑھانے میں کامیاب ہو چکے ہیں جو ٹیلی میٹرز کی لمبائی میں اضافہ کرتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق ٹیلی میٹرز کی لمبائی چوہوں کی عمر بڑھا سکتی ہے۔ہمارے جسم میں ایک عمل ہوتا رہتا ہے جسے ڈی این اے کا اظہار کہتے ہیں۔ اس عمل میں ایک خاص خلیے میں ہزاروں کی تعداد میں موجود جینز ہدایات جاری کرتے ہیں کہ خلیے کو کیا کام کرنا ہے۔ کیا اسے جلد کے خلیے کا کردارادا کرنا ہے یا ذہن کے خلیے کی حیثیت میں عمل کرنا ہے۔گزرتا وقت اور زندگی گزارنے کا طریقہ، خلیوں میں ہدایات کے اس عمل کو تبدیل کر سکتا ہے۔لہذا خلیے جس طرح کا عمل کرنے کے لیے بنے تھے اس سے ہٹ کر عمل کر سکتے ہیں۔

خلیات میں نقصان سے متاثرہ حصوں کو جمع ہونے سے روکنے کے لیے ہمارے جسم میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ موجودہ مواد کی مسلسل تجدید کرتا رہے۔لیکن عمر بڑھنے سے اس صلاحیت کی رفتار ماند پڑ جاتی ہے۔چناچہ خلیے ایسے بے کار یا زہریلے پروٹین کو جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق بھولنے کی بیماری یا پارکنسن کے مرض یا ا?نکھ میں موتیا اترنے سے بھی ہوتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خلیات چکنائی اورچینی جیسے مواد کو پیدا کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔

اس سے ذیابیطس جیسی بیماری ہو جاتی ہے کیونکہ لوگ خوراک کے ان اجزا کو جو خلیات میں پہچنتے ہیں مناسب طریقے سے میٹابولائز نہیں کر سکتے۔عمر سے متعلق ذیابطیس اسی وجہ سے لاحق ہوتی ہے کیونکہ عمررسیدہ جسم کھانے کی تمام چیزوں کو پروسس نہیں کر سکتا۔خلیات میں پائے جانے والے جسمیے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیںخلیات میں پائے جانے والے جسمیے خلیوں کو توانائی فراہم کرتے ہیں لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ وہ اپنی لیاقت کھو دیتے ہیں۔جب وہ خراب ہوتے ہیں تو ڈی این اے کے لیے نقصان دہ ہو جاتے ہیں۔

سائنسی جریدے 'نیچر' کے مطابق جون میں ہونے والی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چوہوں کے جسم میں خلیات کے اندر پائے جانے والے جسیموں کی بحالی سے ان کی جھریاں ختم ہو گئیں۔جب خلیے کو بہت زیادہ نقصان پہنچتا ہے تو اس میں عیب دار خلیوں کی پیدائش روکنے کا عمل کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ایسا خلیہ مرتا نہیں لیکن اس میں تقسیم کا عمل رک جاتا ہے۔یہ زومبی خلیہ جسے بوڑھا خلیہ کہتے ہیں، اپنے قرب و جوار کے دیگر خلیات کو متاثر اور پورے جسم میں سوزش پیدا کر سکتا ہے۔

عمر رسیدہ خلیات جسم کے بوڑھا ہونے اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔چوہوں میں ایسے خلیات کے خاتمے سے بظاہر عمر بڑھنے کے اثرات کم ہوئے ہیں۔عمر بڑھنے کی علامات میں سب سے واضح افزائشِ نو کی قابلیت میں کمی ہونا ہے۔خام خلیے بالاا?خر تھک جاتے ہیں اور ان میں افزائشِ نو کا عمل رک جاتا ہے۔حالیہ تحقیق کے مطابق خام خلیوں کو 'جوان بنانے' سے جسم پر بڑھاپا طاری ہونے کا طریقہ پلٹایا جا سکتا ہے۔خلیے مستقل طور پر ایک دوسرے کے ساتھ ابلاغ کرتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔اس سے سوزش ہوتی ہے جو ' خلیوں کے درمیان گفتگو' میں مسائل پیدا کرتی ہے۔نتیجتاً خلیے مہلک خلیوں اور بکٹیریا کی موجودگی کے بارے میں چوکنا نہیں رہتے۔