30 نومبر 1967ء کو لاہور میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی چیئرمین شِپ میں قائم ہونے والی پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک راہنما اصول تھا کہ ’’ جمہوریت ہماری سیاست ہے ‘‘ لیکن ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کا ریکارڈ گواہ ہے کہ جنابِ بھٹو نے صِرف ایک بار 26 اپریل 1976ء کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ ( شعبہ خواتین ) کی صدور اور سیکرٹری جنرلز کے انتخابات کرائے۔ ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ (شعبہ مَرداں) کے انتخابات کبھی نہیں کرائے؟ ۔ بھٹو صاحب کی زندگی میں اوپر سے لے کر نیچے تک تمام عہدیدار جنابِ بھٹو نامزد کرتے رہے یا اُن کے نامزد عہدیدار؟۔ معزز قارئین!۔ 4 اپریل 1979ء کو سپریم کورٹ کے حکم سے قصور کے نواب محمد احمد خان کے قتل میں بڑے ملزم ( بلکہ مجرم) کی حیثیت سے جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دِی گئی تھی۔ اِ س سے قبل جنابِ بھٹو جیل جانے سے پہلے بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن نامزدؔ کرگئے تھے۔ پھر بیگم نصرت بھٹو نے اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو پارٹی کی شریک چیئرپرسن نامزد کردِیا ۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور پارٹی کے جیالوں نے جنابِ بھٹو کو شہید ؔ مشہور کردِیا۔ بہرحال ۔ آج 26 اپریل 2019ء ہے اور مجھے 26 اپریل 1976ء کا دِن یاد آ رہا ہے ، جب پنجاب بھر سے تحصیل ، شہر اور ضلع سے ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ (شعبہ خواتین)کی225 منتخب صدور اور سیکرٹری جنرلز نے (ملتان کی ) بیگم نادر خان خاکوانی کو صدر اور میری اہلیہ (اب مرحومہ ) بیگم نجمہ اثر چوہان کو سیکرٹری جنرل منتخب کرلِیا تھا ۔ (اُن دِنوں) پاکستان پیپلز پارٹی (مردانہ) کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مبشر حسن کی بڑی بہن (صدارتی امیدوار) محترمہ آئمہ حسن اور رُکن پنجاب اسمبلی بیگم ریحانہ سرور ہار گئی تھیں اور بیگم نجمہ اثر چوہان نے بیگم نصرت بھٹو کی سیکرٹری مِس عابدہ کھوکھر کی بڑی بہن ، رُکن پنجاب اسمبلی مِس ناصرہ کھوکھر اور عیسائی خاتون وکیل "Agnes Frances" کو شکست دے دِی تھی۔ جمہوری ڈرامے کا پس منظر! معزز قارئین!۔ انتخابا ت سے قبل لاہور کے ارکان پنجاب اسمبلی ۔ شیر محمد بھٹی (مرحوم) ، میاں ریاض احمد اور طالبعلم راہنما شریف میتلا ؔ ، میرے گھر آئے ۔ مَیں نے اُنہیں چائے پلوائی۔ اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ ’’ اثر چوہان صاحب!۔ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کا حکم ہے کہ ’’ آپ اپنی بیگم صاحبہ کو انتخاب سے دستبردار کرالیں، تاکہ مس ناصرہ کھوکھر بلا مقابلہ منتخب ہونے سکیں ‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’ حضرات !۔ مَیں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے "Discipline"میں نہیں ہُوں ، مَیں ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کا حکم نہیں مان سکتا۔ آپ لوگ تشریف لے جائیں ‘‘۔ وہ تشریف لے گئے ۔ اُسی شام وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مولانا کوثر نیازی میرے گھر آئے تو، مَیں نے اُنہیں بھی مایوس لوٹا دِیا۔ دو دِن بعد بیگم نصرت بھٹو گورنر ہائوس لاہور میں تھیں۔ اُنہوں نے بیگم نجمہ اثر چوہان کو وہاں بلا کر سمجھایا کہ ’’ آپ کا شوہر ، پیپلز پارٹی کے باغیوں ، ملک غلام مصطفی کھر اور حنیف رامے کا ساتھی ہے ، اِس لئے آپ انتخاب نہ لڑیں‘‘۔ نجمہ اثر چوہان نے کہا کہ’’ بیگم صاحبہ!۔ آپ میرے شوہر کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع کیوں نہیں دیتیں؟‘‘۔ بیگم صاحبہ راضی ہو گئیں۔ دوسرے دِن بیگم نجمہ اثر چوہان کے ہمراہ مَیں بھی وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں تھا ۔ مَیں نے عرض کِیا کہ ’’ قابلِ احترام خاتون ! مجھے تو کل ہی ’’ نوائے وقت‘‘ اور دوسرے اخبارات سے متعلق میرے دوستوں نے بتادِیا تھا کہ آپ مجھے بلوا کر میری بیگم کو انتخاب سے دستبردار کرانے کے لئے مجھ پر دبائو ڈالیں گی؟ لیکن، اِس طرح تو، پارٹی کی بہت ہی بدنامی ہوگی؟‘‘۔ بیگم صاحبہ نے چند لمحے کے لئے سوچا ۔ پھر مسکراتے ہُوئے نجمہ اثر چوہان سے کہا کہ ’’ ٹھیک ہے ، مَیں اپنی پارٹی کو بدنام نہیں ہونے دوں گی ، آپ انتخاب لڑیں‘‘۔ معزز قارئین!۔ پھر کیا ہُوا؟۔ ’’جمہوریت ہماری سیاست ہے ‘‘کے علمبردار وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ، پنجاب پیپلز پارٹی (شعبہ خواتین ) کی منتخب سیکرٹری جنرل بیگم نجمہ اثر چوہان کو اسمبلی نشست سے محروم کر کے شکست خوردہ مِس ناصرہ کھوکھر کو منتخب کرادِیا۔ بیگم نجمہ اثر چوہان نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی ۔ بیگم نصرت بھٹو کی برطرفی! معززقارئین!۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور (10دسمبر 1993ء ) کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کر کے ، اپنی والدۂ محترمہ کو پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن شِپ سے برطرف کردِیا اور خُود چیئرپرسن منتخب ہوگئیں۔(اُس اجلاس کی بیگم بھٹو کو خبر ہی نہیں تھی؟) ۔ اُن دِنوں سیّد حسین حقانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے میڈیا ایڈوائزر تھے ۔ وہ لاہور آ کر مجھ سے مِلے اور اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ ’’ بڑے بھائی!۔ کیا آپ بیگم نصرت بھٹو کی برطرفی پر ہمیں "Support" کرسکتے ہیں ؟‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’ حقانی صاحب مَیں تو ، کئی سال سے بھٹو اور بھٹو خاندان سے انتقام لے رہا ہُوں ، بھلا مَیں اب آپ کی فرمائش کیسے پوری کرسکتا ہُوں؟‘‘۔ حقانی صاحب نے کہا کہ ’’ آپ اپنے انتقام کا سلسلہ جاری رکھیں ۔ بھٹو صاحب اور بیگم نصرت بھٹو کے خلاف لکھ کر لیکن، خُدا کے لئے اور میرے لئے بیگم نصرت بھٹو کی برطرفی کی حمایت کریں ‘‘۔ حقانی صاحب کی فرمائش پر مَیں نے ’’ ایرانی نژاد ‘‘ بیگم نصرت بھٹو کے خلاف ’’ دُختر پاکستان‘‘ بے نظیر بھٹو کا مؤقف قرار دِیا۔ حقانی صاحب نے مجھے وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے ملوایا۔ اور پوچھا کہ ’’ کیا آپ کی بیگم اب بھی ہماری پارٹی کے لئے کام کرنا چاہیں گی؟‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’ جی نہیں !۔ وہ اب ریٹائر ہو چکی ہیں ‘‘۔ پھر وزیراعظم بے نظیر بھٹو مجھے اپنے ساتھ عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر لے گئیں اور وہاں یہ ہُوا کہ ’’ بیجنگ ہوٹل میں منّو بھائی ، ( اب مرحوم) بھٹو خاندان کے "Family Journalist"بشیر ریاض کے ساتھ میری "Table" پر آئے اور بولے اثر چوہان!۔ تم نے اپنے روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں شہید ؔبھٹو کے خلاف بہت کچھ لکھا۔ اب تمہیں اُن کی بیٹی کے ساتھ دورۂ چین پر آتے ہُوئے شرم نہیں آئی؟‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’ منّو بھائی !۔ اگر بے نظیر بھٹو نے میرے والد صاحب کے خلاف کچھ لکھا یا بولا ہوتا تو، مجھے اُن کے ساتھ دورۂ چین پر واقعی شرمندگی ہوتی لیکن ، اب مَیں شرمندہ نہیں ! ‘‘۔ 11 اکتوبر 2008ء کو بیگم نجمہ اثر چوہان کا انتقال ہُوا تو، اُسی شام مجھے الیکٹرانک میڈیا پر ’’ دامادِ بھٹو‘‘ صدر آصف زرداری کا یہ بیان سن کر بہت حیرت ہُوئی کہ ’’ مجھے بیگم نجمہ اثر چوہان کے انتقال پر بہت افسوس ہُوا ہے ۔ مرحومہ نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بہت خدمت کی تھی‘‘۔ دوسرے دِن مَیں نے اپنے کالم ’’ سیاست نامہ‘‘ میں لکھا کہ ’’ دامادِ بھٹو‘‘ کو اپنے ’’روحانی والد ‘‘ جنابِ بھٹو پیپلز پارٹی کی تاریخ کا علم ہی نہیں ۔ بیگم نجمہ اثر چوہان نے تو، مئی 1976ء ہی میں پارٹی چھوڑ دِی تھی‘‘۔ معزز قارئین!۔ آج 26 اپریل کو مَیں یہ بھی سوچ رہا ہُوں کہ ’’ اگر غیر فطری موت کا شکار ہونے والے جناب ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید ؔکہا جاسکتا ہے تو، غیر فطری موت کا شکار ہونے والے شاہنواز بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو کو شہیدؔ کیوں نہیں کہا جاتا ؟‘‘۔ اہم بات یہ کہ 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے ’’ نواسۂ بھٹو ‘‘ کی چیئرمین شِپ میں ، بھٹو مرحوم کی یادگار ، انتخابی نشان تلوارؔ والی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ (پی۔ پی۔ پی )الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ تھی ، لیکن ، اُسے کس نے انتخابات میں حصّہ لینے سے روکا ؟۔ اِس وقت پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں تو، تیرؔ کے انتخابی نشان والی ( مخدوم امین فہیم کی یادگار) ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) فعال ہے جس کے صدر ہیں جنابِ آصف زرداری ۔ تو ،اب جنابِ بھٹو کی ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘کو شہید ؔکہا جائے یا مرحومہؔ ؟ جنابِ بھٹو کی صاحبزادی محترمہ صنم بھٹو تو، پاکستان آ کر لندن واپس چلی گئی ہیں ؟ اُن کی مرضی لیکن، ماشاء اللہ صحت مند ، تندرست و توانا بلاول بھٹو ؔزرداری غازی ؔ کہلانے کے مستحق ہیں ؟۔