آٹھ مارچ ، خواتین کے عالمی دن کے موقعہ پر اس بار جو بھیانک مذاق کیا گیا،مجھے یقین ہے اس نے ہر ایک کو کسی نہ کسی حد تک ہلا کر رکھ دیا۔پہلی بار نہایت منظم انداز میں مختلف شہروں میں بعض مغرب زدہ تنظیموں اور نام نہاد این جی اوز کے زیراہتمام جلوس نکالے گئے، جسے خواتین مارچ کا نام دیا گیا۔ میڈیا میں تو زیادہ کچھ نہیں آیا، سوشل میڈیا پر اس مارچ کی تصاویر آئیں تو میری طرح بے شمار لوگ انگشت بہ دنداں رہ گئے۔ عام طور پر ایسے مشکل الفاظ میں نہیں لکھتا، مگر سچ ہے کہ ان تصاویر کو دیکھ کر آدمی حیرت سے اپنی انگلی دانتوں تلے دبانے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کہیں یہ خواب تو نہیں۔ اخبارنویس سال بھر مختلف دنوں کے حوالے سے ہونے والے مارچ، ان کی تصاویر دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ فوٹوگرافرز تصاویر لے آتے ہیں، جن میں سے ایک آدھ شائع بھی ہوجاتی ہے۔کیرئر کے ابتدائی برسوں کے دوران نیوز روم میں کام کرتا رہا، سٹی پیج پر بھی کئی ماہ تک کام کیا۔ ایسی بے شمار پریس ریلیزوں اور تصاویر سے واسطہ پڑتا۔ ایسا کم ہوا کہ تصویر کا انتخاب کرتے ہوئے مشکل ہوئی ہو۔ یہ تو خیر کبھی نہیں ہوا ہوگا کہ نیوز روم میں بیٹھے مرد بھی بعض تصاویرسے آنکھیں چرانے پر مجبور ہوجائیں اور چپکے سے انہیں ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی نوبت آ گئی۔ مجھے یقین ہے کہ آٹھ مارچ کے خواتین مارچ کی تصاویر اخبارات کے نیوز روم میں سخت کوفت اور تکدر کا باعث بنی ہوں گی۔آٹھ مارچ کی شام سوشل میڈیا پر ایک طوفان سا آیا تھا۔ ایسے معتدل لوگ جو عام طور پر سخت بات نہیں کرتے، وہ بھی چلا اٹھے۔ بہت سی خواتین نے تندوتیز مذمتی پوسٹیں کیں۔فیس بک کا خاصا متحرک یوزر ہوں، میرا حلقہ بھی وسیع ہے، کسی ایک بھی قابل ذکرشخص کو ان تصویروں کا دفاع کرتے نہیں دیکھا۔ ٹوئٹر پر ننانوے فیصد سے زیادہ لوگوں نے اس مارچ ، اس کے پیچھے موجود ایجنڈے اور بچیوں نے جو انتہائی فضول ، تھرڈ کلاس پلے کارڈ اٹھائے تھے، ان کی مذمت کی۔ رات کو گھر پہنچا تو اہلیہ بھی جلی بھنی بیٹھی تھی۔ انہوں نے ا س مارچ ، ان کے آرگنائزرز، اس میں شریک ہونے والی لڑکیوں کو خوب جلی کٹی سنائیں اور ان میں سے بعض کے لئے دلچسپ سزائیں تجویز کیں۔ یہ بتاتا چلوں کہ میری بیوی ورکنگ لیڈی رہی ہے، ایم فل کے بعد اس نے یونیورسٹی میں پڑھایا،ایک ٹی وی چینل پر چار سال کام کیا، کئی پروگرام پروڈیوس کئے، ایف ایم پر بطور ڈی جے کام کرتی رہی ہے۔ اس کے والد یعنی میرے سسرافضل مسعود ایڈووکیٹ(مرحوم) ایک معروف ترقی پسند ، سیاسی رہنما تھے، تمام زندگی لیفٹ کی قوم پرست سیاست کرتے رہے، خوشونت سنگھ کے ناول ٹرین ٹو پاکستان کا سرائیکی میں ترجمہ کیا، قرتہ العین حیدر کی ناچ گرل اور جی ایم سید کی ایک کتاب کو بھی سرائیکی میں منتقل کیا۔ ایسا نہیں کہ اہلیہ میرے جیسے رائٹسٹ کی بیوی ہونے کے ناتے ،میری سوچ کے زیراثر ہے۔ مضبوط قوت ارادی کی مالک پڑھی لکھی خواتین کی طرح وہ اپنی بات کہتی اور جہاں مناسب لگے، ڈٹ جاتی ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کی سہیلیوں اورجتنی خواتین کو وہ عام زندگی میں یا سوشل میڈیا کے توسط سے جانتی ہے، ان سب نے اس انتہائی عامیانہ، گھٹیا، اخلاق سے گرے مظاہروں کو ناپسند اور مسترد کر دیا۔ ہر جگہ یہی ردعمل دیکھنے، سننے کو ملا۔اہلیہ کی بات سن کر اچھا لگا۔ ان مظاہروں کے خلاف خواتین کا احتجاج زیادہ موثرثابت ہوگا۔میرے جیسے لوگوںکے لئے یہ بہت اچھا، تسلی بخش، دل خوش کن منظر ہے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ جو کچھ ہوا، اسے یوں نظرانداز کر دیا جائے۔ نہیں ، بلکہ یہ ایک بہت سیرئس وارننگ، خطرے کا الارم ہے۔ بتا رہا ہے کہ اگلا وار کہاں ہوگا اور کس انداز سے کیا جائے گا؟ مغرب زدہ این جی اوز کے ایجنڈوں کے بارے میں صرف اخبارنویس ہی نہیں، پڑھے لکھے لوگ سب جانتے ہیں۔ ہر ایک کو علم ہے کہ جب کسی این جی او کی کسی مغربی ملک سے فنانسنگ کی جائے، وہاں سے آنے والی مختلف کمپین کو یہاں لانچ کرنے کے لئے فنڈز لئے جائیں تو پھر کچھ بھی ممکن ہوسکتا ہے۔جو پیسے دیتا ہے، ظاہر ہے وہ اپنے ایجنڈہ ہی آگے بڑھائے گا۔ گورے ایک فقرہ عام طور سے بولتے ہیں کہ There is no free lunch. ، ان کی بات بھی درست ہے کہ مفت میں وہ ڈالر، یورو کیوں بانٹیں؟ یہ ایک پورا سائنٹفک کھیل ہے۔ بھاڑے کے ٹٹو پیسے لے کر مہرے بنتے ہیں۔ کسی این جی او کو موت کی سزا ختم کرانے کے لئے ٹھیکہ ملتا ہے، ٹھیکہ زیادہ سخت لفظ ہے تو کمپین کہہ لیں۔ ایک ہی بات ہے۔کوئی لبرل ازم اور آزادی اظہار کے نام پر پروپیگنڈہ کرتی ہے، کسی کے پاس احمدیوں کے حقوق کا ایجنڈا ہوتا ہے، کئی تنظیمیں بیک وقت مل کر مختلف زاویوں سے توہین رسالت کے قانون کے خلاف کام کررہی ہیں، کوئی خواجہ سرائوں کی محرومیوں کا مداوا اور کسی نے خواتین کے حقوق کا پرچم اٹھا رکھا ہے۔ کسی کو امریکہ اور بعض کو یورپی ممالک سے فنڈز آتے ہیں۔کوئی بھی تیز طرارصحافی معمولی سی تحقیق سے معلوم کر لے گا کہ ہمارے ہاں موجود بیشتر متنازع معاملات میں سکینڈے نوئین ممالک ناروے، ڈنمارک ، سوئیڈن وغیرہ سے خاصی امداد ملتی ہے۔ حیران ہوا جا سکتا ہے کہ عالمی بساط پرمعمولی اہمیت رکھنے والے پدی سے یہ ممالک آخر ان ایشوز پر اس قدر انویسٹمنٹ کرنے پر کیوں درپے ہیں؟واشنگٹن پوسٹ کے لئے کام کرنے والا ایک امریکی صحافی یاد آتا ہے، برسوں پہلے لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں اس سے گھنٹوں عسکریت پسندی اور طالبانائزیشن پر گفتگو ہوئی۔ اسی نے انکشاف کیا تھا کہ امریکہ نے مختلف پراجیکٹس مختلف ممالک کو سونپے ہیں،پاکستان میں بعض آپریشنزخاص کر کراچی کو برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس دیکھتی ہے،قادیانیوں اور دیگر اقلیتوں کے معاملات پہلے ناروے کے ذمے تھے، مذہبی حلقوں اورطے شدہ معاملات کو چیلنج کرنے والے کسی ’’باغی‘‘کو نکال کر سیاسی پناہ دلوانا ہوتی،تو ادھر ہی بھیجا جاتا۔(آج کل شائد کینیڈا کو یہ ذمے داری دے دی گئی، طارق فتح جیسے بدبخت مذہب دشمن بھی وہاں پر مزے لوٹ رہے ہیں)۔باخبر امریکی صحافی کے مطابق سی آئی اے مختلف امور کے لئے کسی نسبتا لو پروفائل رکھنے والے ملک سے کام لیتی ہے، بعض معاملات میں ڈانڈے سپین سے جا ملیں گے۔وجہ یہ کہ اس طرح امریکہ پر فوری الزام نہیں آتا۔کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی حکومتی ادارہ اس خواتین مارچ کے پیچھے موجود تنظیموں کا جائزہ لے کر یہ پتہ لگائے کہ ایجنڈا کہاں سے آیا اور فنانس کس نے کیا؟ یہ تو ایک طے شدہ امر ہے کہ سب کچھ منظم اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا۔ مقصد وہ بیریر ، رکاوٹیں توڑنا ہے، جو مغربی تہذیب اور کلچر کے لئے رکاوٹ ہیں۔ یہ وہ بیرئر ہیںجو ہم نے بچانے، ان کی حفاظت، انہیں مضبوط کرنا ہے۔ خواتین کے مسائل کے حوالے سے کچھ کہنا چاہ رہا تھا، گنجائش باقی نہیں رہی، اس پر الگ سے بات کریں گے ان شااللہ۔